کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 236
سات حروف پر قرآن کو نازل کرنے کی حکمت
قرآن کریم کے سات حروف نازل ہونے کی حکمت کا خلاصہ درج ذیل چند امور میں بیان کیا جاتا ہے۔
۱- اُمی قوم کے لیے یاد کرنے اور پڑھنے کی آسانی:
ہر ایک قبیلے کی ایک لغت تو تھی لیکن حفاظتِ شریعت سے انہیں کوئی واسطہ نہیں تھا چہ جائیکہ وہ ان سب چیزوں سے مانوس ہوتے۔ اس حکمت کے بارے کچھ نصوص بھی وارد ہوئی ہیں :
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : احجارالمراء کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبریل علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ہوئی تو آپ نے فرمایا: ’’مجھے ایک اُمِّی (ناخواندہ) قوم کی طرف بھیجا گیا ہے، جن میں غلام، خادم، انتہائی کمزور اور بوڑھی عورتیں بھی ہیں ‘‘ تو جبریل علیہ السلام نے کہا: تو یہ سات حروف پر قرآن پڑھ لیا کریں ۔ (رواہ احمد وابوداؤد والترمذی والطبری باسناد صحیح، واحجارالمراء، موضع بقباء)
نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک حرف پر قرآن پڑھنے کا حکم دیا تو میں نے کہا: اے اللہ! میری امت پر تخفیف فرما۔‘‘
اسی طرح یہ حدیث بھی آپ پڑھ چکے ہیں کہ جبریل نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتے ہیں کہ اپنی امت کو ایک حرف کے مطابق قرآن پڑھائیں ، تو آپ نے کہا: ’’میں اللہ تعالیٰ سے عافیت ومغفرت کا سوال کرتا ہوں ، میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی۔‘‘
۲- اہلِ عرب کی لغوی فطرت کے لیے قرآن کا اعجاز:
قرآن کریم کی صوتی تالیف کی مقدار اس قدر زیادہ ہے کہ وہ عرب کی فطری زبان کی تمام شاخوں کے برابر ہے اور ہر عرب آدمی کے لیے ممکن ہوگیا کہ وہ اپنے فطری و پیدائشی لحن اور اپنی قوم کے لہجے میں اس کی تلاوت کر سکے؛ لیکن اس کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عرب کو کیا گیا چیلنج بھی باقی رہا اور وہ اس کے مقابلے سے بھی عاجزرہے، چناں چہ یہ اعجاز کسی ایک زبان کے لیے نہیں بلکہ یہ اعجاز اہلِ عرب کی فطری لغت کے لیے ہے۔