کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 235
اس تمام بحث سے وضاحت ہوتی ہے کہ پہلی رائے (ا) جس کے مطابق سات حروف سے عرب کی سات لغات مراد ہیں ، جو ایک ہی معنی کے لیے ہوتی ہیں یہی وہ رائے ہے جو نصوص سے ظاہر ہوتی ہے اور مستند دلائل بھی اس کی تائید کرتے ہیں ۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک حرف پر قرآن پڑھنے کا حکم دیا۔ میں نے کہا: اے میرے رب! میری امت پر تخفیف فرما، تو اللہ تعالیٰ نے مجھے دو حروف پر پڑھنے کا حکم دیا۔ میں نے کہا: اے میرے رب میری امت پر تخفیف فرما، تو اللہ نے مجھے جنت کے سات دروازوں کی طرح سات حروف پر پڑھنے کا حکم دیا، ان میں ہر ایک ہی شافی و کافی ہے۔‘‘
(رواہ مسلم والطبری)
امام طبری کہتے ہیں :
سات حروف سے مراد ہمارے نزدیک سات زبانیں (لہجے) ہیں ، جب کہ جنت کے سات دروازوں سے ان میں پائے جانے والے معانی جیسے امر، نہی، ترغیب، ترہیب، قصص اور امثال وغیرہ مراد ہیں کہ جب عمل کرنے والا ان پر عمل کرتا اور ان کی آخری حدود تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہو جاتی ہے اور الحمد للہ جو رائے ہم نے اختیار کی ہے متقدمین علماء میں سے کوئی بھی اس کا مخالف نہیں ہے۔ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’اور ان میں سے ہر ایک شافی اور کافی ہے‘‘ کا مطلب وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ تْکُمْ مَّوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآئٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ہُدًی وَّ رَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ.﴾ (یونس: ۵۷)
’’اے لوگو! تمہارے پاس رب کی طرف سے نصیحت، دلوں کی بیماریوں کے لیے شفا اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت آچکی ہے۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو مومنین کے لیے شفاء بنا دیا ہے چناں چہ وہ اس کتاب کے مواعظ کے ساتھ شیطانی وساوس کی وجہ سے دلوں میں آنے والی بیماریوں کا علاج کرتے ہیں ، اس طرح اس کی آیات کا بیان ہی ان کے لیے ہر قسم کے وعظ ونصیحت کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔