کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 234
دوسری حدیث میں ہے ’’میرے رب نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں قرآن ایک حرف پر پڑھوں ۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے گزارش کی کہ میری امت پر آسانی فرمائے تو اس نے پیغام بھیجا کہ سات قراء ت پر پڑھ لیں ۔‘‘ (اخرجہ مسلم) چناں چہ اس سے حقیقی عدد سات کے تعین کا علم ہوتا ہے۔ چھٹی رائے (و) جس کے مطابق سات حروف سے مراد سات قراء ات ہیں کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ قرآن اور قراء ات میں فرق ہے، قرآن اس وحی کا نام ہے جو بیان اور اعجاز کے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، جب قراء ات وحی کے الفاظ بولنے کی کیفیت میں اختلاف کا نام ہے، جیسے: کسی کلمہ کو مخفف، کسی کو مثقل اور کسی کو مد کے ساتھ پڑھنا۔ ابوشامہ کہتے ہیں : بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حدیث میں ذکر کردہ سات قراء ات آج بھی قرآن میں موجود ہیں جب کہ یہ بات اہلِ علم کے اجماع کے سراسر خلاف ہے، یہ سوچ بعض جاہل لوگوں کی ہے۔ (انظر الاتقان ۱/۸۰) امام طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کسی حرف کو رفع، نصب، جر دینے، اسے ساکن رکھنے، حرکت دینے یا ایک حرف کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے سے قراء ت کا جو اختلاف پیدا ہوتا ہے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات حروف پر قراء ت کروں ۔‘‘ سے بالکل الگ چیز ہے۔ اس لیے کہ یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ حروفِ قرآن میں سے کوئی بھی حرف ایسا نہیں ہے جس کی قراء ت میں اس قسم کا اختلاف ہو اور علمائے امت میں سے کسی ایک نے بھی اس میں جھگڑنے کو کفر قرار دیا ہو۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں جھگڑنے کو اس صورت میں کفر کا سبب قرار دیا ہے جس طرح کے تنازعات لوگ آپ کے پاس لے کر آتے تھے اور یہ بات روایات سے ظاہر ہے۔ (تفسیر الطبری ۱/۶۵) ہو سکتا ہے یہ لوگ سات کے عدد میں اتفاق کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہوئے ہوں اور معاملہ ان پر الجھ گیا۔ ابن عمار کہتے ہیں : ان سات کو سات سمجھنے والے نے غیر مناسب کام کیا جو وہ شخص جس نے حدیث میں مذکور عدد سے قراء تیں مراد لی ہیں ، اس نے اپنے ابہام سے معاملہ کو عام لوگوں پر مشکل کر دیا، کاش وہ سات سے کمی یا بیشی کر لیتا، تاکہ اس کا شبہ زائل ہو جاتا۔