کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 233
کو وَجَآئَتْ سَکْرَۃُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ پڑھا گیا ہے۔ نیز ابدال کے اختلاف میں ذکر ہے کہ آیت:
﴿کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ.﴾ (القارعۃ: ۵)
کو وتکون الجبال کالصوف المنفوش پڑھا گیا ہے۔[1]
اگر مصاحفِ عثمانیہ ان تمام حروف پر مشتمل ہوتے تو ان سے قراء ت کے اختلاف کو کیسے ختم کیا جا سکتا تھا، بلکہ اس نزاع کو ختم کرنے کی یہی ایک صورت تھی کہ لوگوں کو ان سات حروف میں سے کسی ایک حرف پر متفق کر دیا جاتا۔ اگر ساتوں قراء تیں اس مصحف میں ہوتیں تو وہ نزاع اپنی جگہ پر قرار رہتا، اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع قرآن میں کوئی جو فرق باقی نہ رہتا، نیز آثار بھی اسی بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے سات حروف میں سے ایک حرف باقی رکھ کر لوگوں کو اسی پر متفق کر دیا تھا؛ کیوں کہ ان کے خیال میں یہی تھا کہ سات قراء تیں لوگوں سے مشقت اور تنگی کو دور کرنے کے لیے تھیں اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی وہ لوگوں سے اختلاف اور نزاع کو ختم کرنا چاہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ان کے اس کارنامے سے متفق تھے؛ لہٰذا اس پر صحابہ کا اجماع ہوگیا۔جب کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اس انداز سے قرآن جمع کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی جس طرح سیدنا عثمان کے دور میں پیش آئی؛ کیوں کہ ان کے دور میں اس طرح کا اختلاف پیش نہیں آیا تھا جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں پیش آیا تھا۔ اس طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ایک عظیم کام کرنے کی توفیق ملی جس سے امت میں اختلاف کا خاتمہ ہوا اور امت ایک بات پر جمع ہو کر پر سکون ہوگئی۔
پانچویں رائے (ھ) جس کے مطابق سات کی تعداد کا کوئی مفہوم نہیں ہے… کا جواب یہ ہے کہ احادیث میں واضح دلیل موجود ہے کہ ان سے حقیقی تعداد ہی مراد ہے (نہ کہ کثرت)؛ کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے جبریل علیہ السلام نے ایک حرف میں پڑھایا، میں نے زیادہ کا مطالبہ کیا، وہ اضافہ کرتے رہے یہاں تک کہ سات تک پہنچ گئے۔‘‘ (اخرجہ البخاری ومسلم)
[1] مطلب یہ ہے کہ اول الذکر دو مثالیں مصحفِ عثمانی میں اگر ایک ایسی صورت میں لکھی گئی ہیں جنہیں دو طرح سے پڑھا جا سکتا ہے تو بعد میں ذکر کی جانے والی مثالیں تو اس ضمن میں آ ہی نہیں سکتیں ، اس لیے کہ ان میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔ (ع۔م)