کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 232
ہے، لیکن پہلی رائے پر مضبوط دلائل کے آگے یہ ٹھہر نہیں سکتی جن میں صراحت کے ساتھ الفاظ کے اختلاف کے باوجود معنی میں اتفاق کا ذکر آتا ہے۔ نیز انہوں تغایر اور اختلاف کی جو حالتیں بیان کی ہیں ، ان میں بعض کی قراء ت احاد ہے اور اس بات میں اختلاف نہیں ہے کہ قرآن کی ہر چیز تواتر سے ثابت ہونی چاہیے۔ نیز اکثر تغایر کلمہ یا اس کی ادائیگی کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ جس میں لفظ میں کوئی تغیر نہیں ہوتا۔ جیسے اعراب کا اختلاف، حرفی اختلاف یا پھر تفخیم، ترقیق، فتح، امالہ، ادغام، اظہار اور اشمام وغیرہ کا اختلاف ہے۔ جب کہ یہ اختلاف ایسا نہیں ہے جو لفظ اور معنی میں تنوع پیدا کرے، بلکہ یہ مختلف صفات تو کلمہ کی ادائیگی میں پائی جاتی ہیں اور ان کی وجہ سے لفظ کی وحدت ختم نہیں ہوتی، لفظ وہی رہتا ہے۔ اس رائے کے قائل لوگوں کا کہنا ہے کہ مصاحفِ عثمانیہ ان سات حروف پر مشتمل تھے، یعنی مصاحفِ عثمانیہ میں وہ تمام رسم الخط پائے جاتے تھے جو ان حروف کے ہو سکتے تھے؛ چناں چہ آیت: ﴿وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ.﴾ (المومنون: ۸) جو کہ جمع اور واحد کے صیغے کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔ مصحف عثمانی میں لأمٰنتھم تھی اور اس پر چھوٹا الف تھا۔ اسی طرح آیت: ﴿فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْبَیْنَ اَسْفَارِنَا﴾ (سبا: ۱۹) عثمانی رسم الخط میں بٰعِدْ اکٹھا تھا اور اس پر بھی چھوٹا الف تھا۔ لیکن ان دلائل سے ان لوگوں کی بیان کردہ تمام وجوہات ثابت نہیں ہوتیں ۔ مثلاً کسی اور زیادتی کے اختلاف میں ﴿تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ﴾ (التوبہ: ۱۰۰) کو مِنْ کے ساتھ مِنْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ پڑھا گیا ہے۔ اسی طرح ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثَی.﴾ (اللیل: ۳) کو مَا خَلَقَ کی کمی کے ساتھ والذَّکَرَ وَالْاُنْثَی پڑھا گیا ہے۔ اسی طرح تقدیم وتاخیر میں اختلاف میں یہ مثال ہے کہ: ﴿وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ (ق: ۱۹)