کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 231
مذکورہ معانی کو تبدیل کرنے میں ۔
گزشتہ احادیث میں جو یہ بیان ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے جب قراء ت میں اختلاف کیا تو فیصلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے، تو آپ نے ہر ایک کو پڑھنے کا کہا، پھر قراء ت میں اختلاف کے باوجود آپ نے ان کی قراء ت کو درست کہا۔ یہاں تک کہ بعض کی درستگی کی وجہ سے دوسرا شک میں مبتلا ہونے کے قریب ہو جاتا، تو آپ نے شک میں مبتلا ہونے والوں اور دوسروں سے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے سات قراء ات پر قرآن پڑھنے کا حکم دیا ہے۔‘‘ یہ بات بھی معلوم ہے کہ اگر ان کی تلاوت کی وجہ سے کسی حلال کے حرام ہونے یا کسی وعدہ میں وعید کے داخل ہونے کا جھگڑا ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی دونوں کو درست نہ کہتے اور ہر قاری کو اپنی قراء ت جاری رکھنے کا حکم کبھی نہ دیتے۔ اگر اس طرح درست ہوتا تو اس سے یہ بات لازم آتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ایک معین چیز کو ایک شخص کی قراء ت کے مطابق جائز جب کہ دوسرے کی قراء ت کے مطابق اسے حرام قرار دیا ہے، ایک کو کام کرنے کا حکم دیا ہے اور دوسرے کو روکا ہے اور بندوں میں جو بھی یہ کام کرنا چاہے اس کے لیے جائز رکھا ہے۔
اگر کوئی شخص اس بات کا قائل ہے تو ایک ایسی چیز کو ثابت کرنا چاہتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ان الفاظ میں انکار کیا ہے۔
﴿اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَ لَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا.﴾ (النساء: ۸۲)
’’کیا یہ لوگ قرآن میں غوروفکر نہیں کرتے اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے ہوتا تو انہیں اس میں بہت اختلاف ملتا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی محکم کتاب میں جو یہ نفی کی ہے یہ ایک واضح دلیل ہے کہ اس نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک حکم میں کتاب نازل فرمائی ہے؛ لہٰذا اس میں مختلف احکام نہیں ہیں ۔ (تفسیر الطبری صفحہ ۴۸،۴۹، ج۱)
چوتھی رائے (د) جس میں یہ کہا گیا ہے کہ سات حروف سے تغیر کی وہ سات حالتیں مراد ہیں جن میں اختلاف ہوتا ہے۔ کے بارے یہ جواب دیا گیا ہے کہ اگرچہ یہ بات لوگوں میں مقبول