کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 230
تھا لیکن دونوں کی قراء ت میں اختلاف تھا، اس طرح عمر کا ہشام کی قراء ت کا انکار محال تھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سات حروف سے مراد وہ کچھ نہیں ہے جو یہ لوگ سمجھ رہے ہیں بلکہ ایک معنی میں مختلف الفاظ کا استعمال مراد ہے اور اس بات کو ہم ترجیح دیتے ہیں ۔
ابن جریر طبری دلائل بیان کرنے کے بعد اس رائے کو باطل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں :
سات حروف جن پر قرآن نازل ہوا یہ ایک ہی حرف میں بولی جانے والی سات لغات (لہجے) ہیں ، گو ان کے الفاظ مختلف ہوں لیکن معنی ایک ہی ہوتا ہے۔ جسے کوئی کہتا ہے۔ ھلم، تعال، اقبل، الی، قصدی، نحوی اور وغیرہ۔ ان کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ میرے پاس آؤ، ادائیگی میں یہ الفاظ مختلف ہوتے ہیں لیکن معنی سب کا ایک ہی ہے جیسا کہ ہم نے ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے، یہ ایسے ہی ہے جیسے: الا صَیْحۃ واحدۃً کو الا زقیۃ واحدۃ کہنا۔
امام طبری ایک مفروضۂ کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کون سی کتاب میں ایسے حرف پاتے ہیں جو سات مختلف لغات میں پڑھے جاتے ہوں جو ایک معنی رکھتے ہوں ، کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ہم یہ دعویٰ ہی نہیں کرتے کہ آج یہ چیز موجود ہے۔
اسی طرح ایک اور اعتراض کہ: دوسری چھ لغات اس میں موجود کیوں نہیں ہیں ؟ کا جواب یہ دیتے ہیں امت کو قرآن یاد کرنے کا حکم دیا گیا اور انہیں ان سات حروف میں سے کسی ایک کو پسند کرنے کا اختیار دیا گیا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں فتنہ کے ڈر سے ایک ہی حرف کو اختیار کر لیا گیا اور اسی پر اتفاق ہو گیا اور یہ ایسی امت ہے جسے گمراہی پر اتفاق کرنے سے معصوم رکھا گیا ہے۔ (انظر تفسیر الطبری صفحۃ ۵۷ ومابعد ھا، ج ۱)
تیسری رائے (ج) جس کے مطابق سات حروف سے مراد سات اقسام یعنی امر، نہی، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال ہیں ۔ اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ احادیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سات حروف سے یہ مراد ہے کہ کلمہ دو یا تین اسی طرح سات طریقوں تک پڑھا جا سکتا ہے اور اس کا مقصد امت کے لیے آسانی ہے اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی آیت میں حلال بھی اور حرام بھی۔ امت کے اوپر یہ وسعت حلال کو حرام کرنے یا حرام کو حلال کرنے میں نہیں ہے اور نہ ہی