کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 23
کتاب: مباحث فی علوم القرآن مصنف: عبد اللہ سرور پبلیشر: دار الکتب السلفیہ ترجمہ: عبد اللہ سرور مبحث: 1 قرآنی علوم نشوونما اور تدریجی ارتقاء قرآن کریم اسلام کا ہمیشہ رہنے والا ایک ایسا معجزہ ہے جس میں علمی پیش قدمی اس کے اعجاز کو مزید پختہ کرتی ہے۔ اللہ رب العالمین نے اسے ہمارے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اس لیے نازل کیا تاکہ وہ لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر (اسلام کی) روشنی کی طرف لائیں اور سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائیں ۔ چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان صحابہ رضی اللہ عنہم تک اسے پہنچایا جو خالص عرب تھے، وہ بھی اپنے سلیقہ کے مطابق اسے سیکھتے تھے اور جب انہیں کسی آیت کے سمجھنے میں دشواری پیش آتی تو وہ اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیا کرتے تھے۔ امام بخاری، امام مسلم اور دیگر محدثین رحمہم اللہ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، وہ فرماتے ہیں : جب آیت﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ﴾ (الانعام: ۸۲)’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ ظلم کی آمیزش نہیں کی۔‘‘ نازل ہوئی تو لوگوں کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی، چناں چہ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے کون اپنی جان پر ظلم نہیں کرتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم نے نیک بندے (لقمان) کی بات نہیں سنی؟ ﴿اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ﴾ (لقمان: ۱۳) ’’بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ یعنی ظلم سے مراد شرک ہے۔ بعض آیات کی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی فرما دیا کرتے تھے۔ امام مسلم رحمہ اللہ اور دیگر محدثین نے روایت بیان کی ہے کہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر ارشاد فرماتے سنا: ﴿وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ﴾ (الانفال: ۶۰)