کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 229
قراء ت میں اختلاف ہو گیا۔ ایک نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سیکھی تھی، جب کہ دوسرے نے بھی یہی کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح سیکھی تھی۔ چناں چہ ان دونوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے، لہٰذا تم قرآن میں جھگڑا مت کرو، کیوں کہ اس میں جھگڑنا کفر ہے۔‘‘ (رواہ احمد فی المسند، ورواہ الطبری، ونقلہ ابن کثیر فی الفضائل والھیثمی فی مجمع الزوائد، وقال رجالہ رجال الصحیح) ٭ اعمش کہتے ہیں : سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے سورۃ المزمل کی آیت نمبر ۶ اس طرح پڑھی: ﴿اِِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ہِیَ اَشَدُّ وَطْاً وَّاَصْوَبُ قِیْلًا.﴾تو کسی آدمی نے کہا: اے ابوحمزہ! اَصْوَبُ نہیں اَقْوَمُ ہے تو انہوں نے فرمایا اَقْوَمُ، اَصْوَبُ اور اَھْیَأُ ایک ہی چیز ہے۔ (رواہ الطبری، وابو یعلیٰ والبزار، ورجالہ رجال الصحیح) ٭ محمد بن سیرین کہتے ہیں : مجھے بتایا گیا ہے کہ جبریل اور میکائیل( رحمہم اللہ ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو جبریل علیہ السلام نے کہا: آپ قرآن دو حروف پر پڑھیں ۔ اس پر میکائیل نے ان سے کہا: اضافہ کر دیں ۔ یہاں تک کہ سات حروف تک پہنچ گئے۔ محمد بن سیرین کہتے ہیں : یہ حروف ادا کرنے سے حلال وحرام یا امرونہی میں فرق نہیں آتا جیسے آپ تعال، ھلم اور اقبل وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں ۔ (جن سب کا مطلب ایک ہی ہوتا ہے) مزید کہنے لگے: ہماری قراء ت ہے: ﴿اِِنْ کَانَتْ اِِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً﴾ (یس: ۲۹) جب کہ عبداللہ بن مسعود کی قراء ت میں اِنْ کَانَتْ الا زقیہً واحدۃً ہے۔ (رواہ الطبرانی، ومحمد بن سیرین التابعی فالحدیث مرسل) دوسری رائے (ب) جس کے مطابق سات حروف سے مراد عرب لغات میں سے سات لغات ہیں جن پر قرآن نازل ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مجموعی لحاظ سے قرآن ان سات قراء توں سے باہر نہیں ہے؛ کیوں کہ عرب کی لغات سات سے زیادہ تھیں ۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ عمر بن خطاب اور ہشام بن حکیم دونوں قریشی تھے، دونوں کا قبیلہ ایک