کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 228
ہیں ۔ جن سے معنی ایک ہی رہتا ہے۔ جیسے اقبل، ثقال، ہلم، عجل اور اسرع وغیرہ کہ یہ الفاظ مختلف ہیں ۔ جب کہ ان کا معنی ایک ہی ہے۔ سفیان عیینہ، ابن جریر، ابن وہب اور بہت سے لوگوں نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ جب کہ ابن عبدالبر نے اسے اکثر علماء کی طرف منسوب کیا ہے۔ اس کی دلیل سیّدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کہا: اے محمد! قرآن کو ایک حرف پڑھیں تو میکائیل نے کہا: زیادہ کر دیجئے۔ جبریل نے کہا: دو حرفوں پر۔ یہاں تک چھ یا سات حروف تک جا پہنچے۔ پھر فرمایا: یہ سبھی تسلی بخش اور کافی ہیں ۔ جب تک آیت عذاب کو آیتِ رحمت یا آیتِ رحمت کو آیت عذاب پر ختم نہ کیا جائے۔ جیسا کہ آپ کہتے ہیں ھَلُمَّ، تَعَال، اَقْبلِ، اِذْھَبْ، اَسْرِ ع اور عُجِّل وغیرہ۔ (اخرجہ احمد والطبرانی، با سنادٍ جید، وھذا اللفظ لاحمد) ابن عبدالبر کہتے ہیں : یہ مثال بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ قرآن کن حروف پر نازل ہوا ہے یعنی ان الفاظ کا مطلب ایک ہی ہے لیکن پڑھنے میں مختلف ہیں ، ان میں سے کوئی بھی لفظ معنی متضاد نہیں رکھتا اور کوئی ایسا سبب پایا جاتا ہے جو کسی وجہ سے معنی کے مخالف ہو یا اس کی نفی کرے جب کہ رحمت اور عذاب میں متضاد معنی پایا جاتا ہے۔ (انظر الاتقان: ۱/۴۷) بہت سی احادیث اس رائے کی تائید کرتی ہیں جن میں سے کچھ بیان کی جاتی ہیں ۔ ٭ ایک آدمی نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تلاوت کی تو آپ نے اس میں تبدیلی کر دی، وہ آدمی کہنے لگا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی سورت سنائی تھی لیکن آپ نے کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ چناں چہ یہ دونوں مقدمہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگئے، اس شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ نے فلاں فلاں آیت مجھے نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ’’کیوں نہیں ۔‘‘ راوی کہتے ہیں : عمر( رضی اللہ عنہ ) کے دل میں کوئی بات آگئی، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہرے سے بھانپ لیا پھر آپ نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر تین مرتبہ فرمایا: ’’ابعد شیطاناً شیطان کو بھگا دو۔‘‘ پھر فرمایا: اے عمر! قرآن سارے کا سارا صحیح ہے، جب تک رحمت کو عذاب یا عذاب کو رحمت نہ بنایا جائے۔ (اخرجہ احمد باسناد رجالہ ثقات، واخرجہ الطبری) ٭ بسر بن سعید کہتے ہیں : ابوجھیم انصاری نے انہیں بتایا کہ دو آدمیوں کا قرآن کی ایک آیت کی