کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 227
احاد کی قراء ت کے مطابق اضافے کی مثال میں سیدنا عبداللہ بن عباس کی قراء ت جو سورت الکہف کی آیت نمبر ۷۹ میں لفظ صَالِحۃٍ کے اضافہ کے ساتھ اس طرح پڑھتے ہیں : ﴿وَ کَانَ وَرَآئَ ہُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ صَالِحَۃٍ غَصْبًا.﴾ (الکہف: ۷۹) اسی طرح کمی کی مثال ہے: ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْاُنْثَی.﴾ (اللیل: ۳) کی جگہ وَالَّذکَرِ والانْثیٰ پڑھنا۔ (یہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراء ت ہے) ۷- ہجوں کا اختلاف: یعنی حروف کو موٹا یا باریک پڑھنے میں اسی طرح امالہ، اظہار، ادغام، اشمام اور تسہیل وغیرہ کے ساتھ پڑھنے کا اختلاف، مثلاً امالہ کرنا یا نہ کرنا جیسے ﴿وَ ہَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ مُوْسٰی.﴾ (طٰہٰ: ۹) اَتٰی اور موسیٰ کو امالہ کے ساتھ پڑھنا۔ اسی طرح خبیرًا بصیرًا میں راء کو باریک پڑھنا الطَّلاق میں لام کو تفخیم کے ساتھ اور ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (المؤمنون: ۱) میں ہمزہ کو تسہیل کے ساتھ پڑھنا۔ ھ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ حروف میں سات کے عدد کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔ یہ تو کسی عدد میں کمال بیان کرنے کے لیے عرب کے ہاں ایک معروف لفظ تھا، اور سبعۃ احرف میں اشارہ ہے کہ قرآن کریم اپنی لغت و ترکیب میں ایک ایسی کتاب ہے کہ گویا اس میں کلامِ عرب کے تمام ابواب و حدود پائے جاتے ہیں اور کمال کی بلندیوں تک پہنچا ہوا ہے۔ چناں چہ سات کا لفظ احاد کے باوجود کثرت اور کمال کے لیے آیا ہے۔ جیسا کہ (کثرت بیان کرنے کے لیے) دہائیوں میں ستر اور سینکڑوں میں سات سو بول دیا جاتا ہے۔ حالانکہ اس سے کوئی معین عدد مراد نہیں ہوتا۔ (انظر الاتقان: ۱/ ۴۵) و۔ ایک جماعت کہتی ہے کہ سات حروف سے سات قراء تیں مراد ہیں ۔ ان تمام آراء میں سب سے راجح پہلی رائے ہے کہ سات حروف سے مراد سات لغات