کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 226
اَفَلَم یَأیس بھی پڑھا گیا ہے یا پھر یہ اختلاف کلمہ میں ہوتا ہے۔ مثلاً:
﴿فَیَقْتُلُوْنَ وَ یُقْتَلُوْنَ﴾ (التوبہ: ۱۱۱)
میں پہلی جگہ فاعل جب کہ دوسری جگہ مفعول کی بناء پر پڑھا گیا، اسے اس کے برعکس بھی پڑھ لیا جاتا ہے، یعنی پہلی جگہ مفعول اور دوسری جگہ فاعل لیکن
﴿وَجَآئَتْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ (ق: ۱۹)
کی جگہ وَجَائَ تْ سَکْرَۃُ الحَقِّ بِالْمَوْتِ پڑھنا شاذ قراء ت ہے، جو کہ متواتر کے درجہ کو نہیں پہنچتی۔
۵- ابدال کا اختلاف:
اس میں کسی حرف کو دوسرے حرف کے ساتھ بھی بدلا جا سکتا ہے۔ مثلاً
﴿وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُہَا﴾ (البقرہ: ۲۵۹)
میں نُنْشِزُھَا یعنی نون کے ضمہ اور زاء کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، اسی طرح اسے نون کے فتح اور راء کے ساتھ نَنْشُرُھَا پڑھنا اور کبھی یہ ابدال لفظ کا لفظ سے ہوتا ہے مثلاً آیت کے الفاظ: ﴿کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ.﴾ (القارعۃ: ۵) کو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کَالصُّوفِ المَنْفُوْشِ پڑھتے ہیں ۔ نیز کبھی یہ ابدال مخارج کی تبدیلی سے ہوتا ہے، مثلاً ﴿وَطَلْحٍ مَّنْضُودٍ.﴾ (الواقعہ: ۲۹) میں طلعٍ بھی پڑھا جاتا ہے۔ اس لیے کہ ان دونوں (یعنی عین اور حاء) کا مخرج ایک ہے اور یہ دونوں حروف حلقی ہیں ۔
۶- کمی اور زیادتی کا اختلاف:
زیادتی کی مثال آیت
﴿وَ اَعَدَّ لَہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَہَا الْاَنْہٰرُ﴾ (التوبۃ: ۱۰۰)
کو من کے اضافے کے ساتھ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھَارُ بھی پڑھا گیا ہے اور یہ دونوں قراء تیں متواتر ہیں جب کہ کمی کی مثال سورت البقرہ میں جمہور نے:
﴿وَ قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا﴾ (البقرہ: ۱۱۶)
کے شروع میں واؤ پڑھا ہے جب کہ بعض واؤ کے بغیر قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰہُ وَلَدًا پڑھتے ہیں ۔