کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 225
جائے تو استغراق مراد ہوگا یعنی ہر طرح کی امانت اور امانت کی ہر جنس ونوع، جب کہ مفرد ہو تو مراد جنس امانت ہوگی، خواہ وہ کسی قسم کی ہو اور اس میں بھی کثرت پائی جاتی ہو اور اس کے تحت بہت سی جزئیات آتی ہیں ۔
۲- اعرابی حالت میں اختلاف:
مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿مَا ہٰذَا بَشَرًا﴾ (یوسف: ۳۱)
جمہور اسے منصوب پڑھتے ہیں اس لیے کہ یہاں پر مَا، لَیْسَ والا عمل کر رہا ہے۔ یہ اہلِ حجاز کی لغت ہے اور اسی میں قرآن نازل ہوا ہے جب کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ رفع کے ساتھ بَشَرٌ پڑھتے ہیں یہ بنو تمیم کی لغت ہے؛ کیوں کہ ان کے ہاں مَا، لیْسَ والا عمل نہیں کرتا۔ اسی طرح آیت:
﴿فَتَلَقَّیٰٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ﴾ (البقرہ: ۳۷)
میں اٰدَمَ کو منصوب اور کلماتٌ کو مرفوع بھی پڑھا گیا ہے۔ یعنی ﴿فَتَلَقَّیٰٓ اٰدَمَ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٌ﴾
۳- صرفی اختلاف:
فرمانِ باری تعالیٰ:
﴿فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْبَیْنَ اَسْفَارِنَا﴾ (سبا: ۱۹)
میں منادی مضاف ہونے کی وجہ سے رَبَّنا کو منصوب اور بَاعِد کو امر کے صیغہ کے ساتھ پڑھا گیا ہے جب کہ رفع کے ساتھ رَبُّنا اور بَاعَدَ (عین کے فتح کے ساتھ) بمعنی ماضی بھی پڑھا گیا ہے، اسی طرح عین مشددہ مفتوحہ کے ساتھ بَعَّدَ بھی پڑھا گیا ہے۔
اسی طرح بعض جگہ حروف کو تبدیل کر کے بھی پڑھا جاتا ہے، مثلاً یعلمون کی جگہ تعلمون
﴿اِہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْم.﴾ (الفاتحہ: ۵)
میں الصراط کو السراط پڑھ لیا جاتا ہے۔
۴- تقدیم وتاخیر کا اختلاف:
یہ اختلاف یا تو حرف میں ہوتا ہے جیسے فرمان الٰہی ﴿اَفَلَمْ یا ئَیسِ﴾ (الرعد: ۳۱) کو