کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 224
نہیں ہیں اور یہ اہلِ عرب کی فصیح ترین لغات ہیں ۔ قرآن کا زیادہ تر حصہ قریش کی لغت میں ، جب کہ کچھ حصہ ھذیل، ثقیف، ھوازن، کنانہ، تمیم اور یمن والوں کی لغت میں نازل ہوا، اس طرح مجموعی لحاظ سے قرآن سات لغات پر مشتمل ہے۔ یہ رائے سابقہ رائے سے مختلف ہے کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے سات حروف متفرق طور پر قرآن کی مختلف سورتوں میں پائے جاتے ہیں اور اس کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ کلمہ کے ایک ہی معنی میں اتفاق کے باوجود سات حروف ہیں ۔ ابوعبید کہتے ہیں : اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر کلمہ سات لغات پر پڑھا جا سکتا ہے، بلکہ سات لغات اس میں علیحدہ علیحدہ مقامات پر ہیں ۔ یعنی بعض حصہ قریش کی لغت میں ہے، بعض ھذیل اور کچھ حصہ ھوازن اور دیگر قبائل کی لغت میں ہے۔ مزید کہتے ہیں کہ بعض لغات دوسری لغات سے زیادہ سعادت مند ہیں اور ان میں قرآن کا زیادہ حصہ نازل ہوا ہے۔ (الاتقان: ۱/۴۷) ج۔ کچھ لوگوں کے نزدیک سات حروف سے سات اقسام یعنی امر، نہی، وعدہ، وعید، جدال، قصص اور امثال یا امر، نہی، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال مراد ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پہلی کتابیں ایک عنوان اور ایک ہی حرف (انداز) پر نازل ہوئیں ، جب کہ قرآن میں سات موضوعات اور سات ہی طرح کا بیان ہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔‘‘ (اخرجہ الحاکم والبیہقی) د۔ ایک جماعت کے مطابق سات حروف سے مراد تغیر و تبدل کی سات وجوہات ہیں جن میں اختلاف واقع ہوتا ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں : ۱- اسماء میں اختلاف: اس میں مفرد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مونث کا اختلاف ہوتا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمَانٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُوْنَ.﴾ (المومنون: ۸) یہاں جمع کے صیغہ کے ساتھ لِاَمَانٰتِہِمْ اور واحد کے ساتھ لِاَمَانَتِھِمْ بھی پڑھا گیا ہے اور مصحف میں اس کی کتابت لِأَمنتِھِمْ سے ہے، جس میں دونوں معانی کا احتمال ہے یعنی الف ساکنہ سے خالی ہے۔ اسے دونوں طرح پڑھنے سے مطلب میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جمع پڑھا