کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 223
پڑھو‘‘ ہشام نے اسی طریقے پر پڑھی جیسے میں نے سنی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس طرح اتری ہے۔‘‘ پھر فرمایا: ’’عمر تم پڑھو‘‘ میں نے اس انداز سے پڑھی جس طرح آپ نے مجھے پڑھائی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس طرح (بھی) اتری ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک یہ قرآن سات حروف (لہجوں ) پر نازل ہوا ہے، سو تمہیں جو آسان لگے اسی کے مطابق پڑھو۔‘‘ (رواہ البخاری ومسلم واصحاب السنن الابن ماجۃ واحمد وابن جریر) اس بارے بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں جن میں بہت زیادہ کا ابن جریر نے اپنی تفسیر کے مقدمہ میں ذکر کیا ہے۔ امام سیوطی کہتے ہیں کہ یہ روایات اکیس (۲۱) صحابہ کرام سے مروی ہیں ۔ اسی طرح ابوعبید قاسم بن سلام نے سات حروف پر قرآن نازل ہونے والی حدیث کو تواتر کا درجہ دیا ہے۔ ان سات حروف کی تفسیر میں اہلِ علم کا بہت زیادہ اختلاف ہے۔ یہاں تک کہ ابن حبان کہتے ہیں : سات حروف سے کیا مراد ہے؟ اس بارے اہلِ علم کے پینتیس (۳۵) اقوال ہیں ، جن میں سے اکثر اقوال ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۔ ان میں سے چند اہم اقوال ہم یہاں ذکر کرتے ہیں : ا۔ اکثر علماء کا مذہب ہے کہ سات حروف سے مراد ایک ہی معنی میں استعمال ہونے والی عرب کی سات لغات ہیں ۔ جن میں حروف کے مختلف ہونے کے باوجود معنی ایک ہی رہتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کسی بات کو بیان کرنے کے لیے عرب لغت میں عبارت بدل جائے تو قرآن بھی اسی انداز سے نازل ہوتا ہے جس کا مقصد اس معنی کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ وہ ایک لفظ سے ہو یا متعدد الفاظ سے۔ اور ان سات لغات کی تحدید میں بھی اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ قریش، ھذیل، ثقیف، ھوازن، کنانہ، تمیم اور یمن کی لغات ہیں ۔ جب کہ ابو حاتم سجستاتی کہتے ہیں : قرآن قریش، ھذیل، تمیم، ازد، ربیعہ، ھوازن اور سعد بن بکر کی لغات میں نازل ہوا۔ ان کے علاوہ اور اقوال بھی مروی ہیں ۔ (انظر الاتقان: ۱/۴۷) ب۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ سات حروف سے مراد عرب کی وہ سات لغات ہیں جن پر قرآن نازل ہوا۔ اور اس کا مطلب یہ ہے قرآن کریم کے کلمات ان سات حروف سے باہر