کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 221
مبحث: 10
قرآن کریم کا سات حروف پر نزول
عرب لوگوں کے مختلف لہجے تھے جو گنگناہٹ، آواز اور ادائیگیٔ حروف میں ان کی فطری عادت سے تعلق رکھتے تھے، ادب کی کتابوں نے ان کے بیان اور باہمی قرب کے بارے بہت کچھ لکھا ہے۔ ادائیگی کلمات میں ہر قبیلہ کا ایک اپنا انداز تھا جو دوسروں کا نہیں تھا۔ عربوں میں صرف قریش کا قبیلہ ایک ایسا قبیلہ تھا جسے لغت پر برتری حاصل ہوئی جس کی وجہ ان کا بیت اللہ کے پڑوس میں ہونا، حاجیوں کو پانی پلانا، مسجد حرام کی تعمیر اور تجارتی شرف تھا۔ چناں چہ انہی خصوصیات کی بناء پر تمام عربوں نے ان کی لغت کو اپنی لغات کے لیے ایک ماں کی حیثیت دے رکھی تھی۔ اس لیے فطرت کا تقاضہ تھا کہ قریشی رسول پر قریش کی لغت میں قرآن نازل کیا جائے جو عرب کے لیے باعث دل جوئی ہو اور اس سے قرآن کریم کا اعجاز بھی ثابت ہوجائے کہ جب یہ قرآن ان تک پہنچے تووہ اس جیسا نہ لا سکیں ۔
ایک ہی معنی کی ادائیگی کے لیے عرب لوگ مختلف لہجے استعمال کرتے تھے، لہٰذا قرآن کریم کا اعجاز تب ہی مکمل ہو سکتا تھا جب وہ عرب میں مستعمل تمام لہجوں اور پڑھنے کے اندازوں کو شامل ہوتا، تاکہ ان کے لیے اس قرآن کو سمجھنا، پڑھنا اور یاد کرنا آسان ہو جاتا۔[1]
سنتِ نبویہ میں ایسی نصوص تواتر سے ملتی ہیں جن میں یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ قرآن سات حروف (لہجوں ) پر نازل ہوا ہے۔ چند ایک ملاحظہ ہوں ۔
[1] اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ جیسے ہی جغرافیہ بدلتا ہے لہجے بدل جاتے ہیں ، جس کی عام سی مثال یوں سمجھیں کہ ہم ایک لفظ اردو زبان میں فرض کر لیتے ہیں مثلاً: اِدھر اُدھر۔ اب ہم پنجاب کے مختلف لوگوں کو مختلف انداز میں یہ الفاظ ادا کرتے سنتے ہیں مثلاً لاہور اور اس سے آگے گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ کے علاقوں میں لوگ انہی الفاظ کو پنجابی میں ’’ایدھر اودھر‘‘ بولتے ہیں ۔ لوکل پنجابی اور دریائے راوی سے ملحقہ علاقوں کے لوگ اس لفظ کو ’’ایدھے اودھے‘‘ بولتے ہیں ، جب کہ جنوبی پنجاب چلے جائیں تو وہاں کے لوگ اسے ’’ایڈھے اوڈھے‘‘ کہیں گے۔ اب دیکھیں بات ایک ہی ہے لیکن جغرافیہ بدلنے کے ساتھ لہجہ بدل گیا۔ اسی طرح عرب قبائل کی حالت تھی۔ (ع۔م)