کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 220
﴿قٓ وَالْقُرْاٰنِ الْمَجِیْدِ. بَلْ عَجِبُوْٓا اَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ فَقَالَ الْکٰفِرُوْنَ ہٰذَا شَیْئٌ عَجِیْبٌ.﴾ (ق: ۱۔۲)
اس میں دال اور ’’ب‘‘ کے مقطع قریب قریب ہیں ۔
۳- المتوازي: اس کا مطلب یہ ہے کہ دو کلمات وزن اور حروف میں سجع سے متفق ہوں جیسے
﴿فِیْہَا سُرُرٌ مَّّرْفُوْعَۃٌ. وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوعَۃٌ.﴾ (الغاشیہ: ۱۳۔۱۴)
۴- المتوازن: اس کا مطلب یہ ہے کہ مقطع کلام میں حرفِ وزن کا خیال رکھا جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان:
﴿وَنَمَارِقُ مَصْفُوفَۃٌ. وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ.﴾ (الغاشیہ: ۱۵۔۱۶)
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ فاصلوں میں ایک حرف زیادہ کرنے کا خیال رکھا جاتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے:
﴿وَتَظُنُّوْنَ بِاللّٰہِ الظُّنُوْنَا.﴾ (الاحزاب: ۱۰)
یہاں الف ملایا گیا ہے، کیوں کہ اس سورت کے فواصل کے مقاطع میں نون تنوین سے بدلا ہوا الف ہے جو کہ علامت وقف ہے۔ لہٰذا مقاطع میں برابری اور فواصل کے اختتام میں مناسبت کی غرض سے ایک الف کا اضافہ کیا گیا ہے۔
کبھی ایک حرف کو حذف کر دیا جاتا ہے جیسا کہ آیت وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ میں ہوا ہے۔ یہاں یاء کو حذف کیا گیا ہے اس لیے کہ اس سے اگلی اور پچھلی آیات کے مقاطع فواصل راء کے ساتھ ہیں ۔
کبھی بلاغت کا مفہوم پیدا کرنے کے بطور تشویق مقدم کو مؤخر کر دیا جاتا ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے:
﴿فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَۃً مُّوْسٰی.﴾ (طٰہٰ: ۶۷)
اصل قاعدہ یہ ہے کہ کلام میں فعل اپنے فاعل سے متصل ہو اور مفعول بعد میں آئے لیکن یہاں فاعل (موسیٰ) کو بعد ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں صرف فاصلے کا خیال نہیں رکھا گیا بلکہ کلام میں قاعدۂ بلاغت (تشویق) کا خیال رکھا گیا ہے۔