کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 219
اس لفظ کی پیروی کرتا ہے جس میں سجع کی رعایت رکھی گئی ہوتی ہے۔ جب کہ قرآن میں سجع کے انداز پر جو کلام پایا جاتا ہے وہ اس طرح کی نہیں ہے؛ کیوں کہ اس میں لفظ معنی کے تابع ہوتا ہے (بخلاف سجع کے کہ اس میں معنی لفظ کے تابع ہوتا ہے) اور ان میں فرق یہ ہے کہ بعض کلام ایسے ہوتے ہیں جن میں ایسے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جن سے معانی مقصود کا اظہار ہوتا ہے، جب کہ بعض کلام ایسے ہوتے ہیں جن میں الفاظ کی بجائے معانی کی ترتیب کا خیال رکھا جاتا ہے۔ (البرہان للزرکشی: ۱/۵۸)
میرے خیال کے مطابق اگر سجع کا مقصد یہ ہو کہ کلام میں مسلسل ایک وزن پر الفاظ لائے جائیں اور معنی کا لحاظ نہ رکھا جائے تو وہ ایک ایسا تکلف ہے جو لوگوں کی گفتگو میں ناپسند ہے چہ جائیکہ یہ کلام اللہ میں آئے، لیکن جب معانی کا لحاظ رکھا جائے اور اتفاقی طور پر ہم وزن بن جائے اور اس میں تکلف کا بھی کوئی دخل نہ ہو تو یہ بلاغت کی ایک قسم ہے۔ تو یہ چیز جس طرح دیگر کلاموں میں آجاتی ہے قرآن میں بھی آسکتی ہے۔ تو جب ہم قرآن میں اسے فاصلے کا نام دیتے ہیں نہ کہ سجع کا تو اس چیز سے ہمارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہم قرآن میں سجع کو پہلے معنی پر نہیں لیتے۔
قرآن کریم میں فاصلوں کی اقسام:
۱- فواصل متماثلہ (ملتے جلتے فاصلے) جیسے:
﴿وَالطُّورِ. وَکِتٰبٍ مَّسْطُوْرٍ. فِیْ رَقٍّ مَّنْشُورٍ. وَّالْبَیْتِ الْمَعْمُوْرِ.﴾ (الطور: ۱۔۴)
﴿وَالْفَجْرِ. وَلَیَالٍ عَشْرٍ. وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ. وَالَّیْلِ اِِذَا یَسْرِ.﴾ (الفجر: ۱۔۴)
﴿فَلَا اُقْسِمُ بِالْخُنَّسِ. الْجَوَارِ الْکُنَّسِ. وَالَّیْلِ اِِذَا عَسْعَسَ. وَالصُّبْحِ اِِذَا تَنَفَّسَ.﴾ (التکویر: ۱۵۔۱۸)
۲- حروف میں ایک دوسرے سے قربت رکھنے والے فاصلے: جیسے
﴿اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ. مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ.﴾ (الفاتحہ: ۲۔۳)
یہاں میم اور ن میں مقطع کے لحاظ سے قربت پائی جاتی ہے۔