کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 218
اختتام آیت: اختتام آیت سے مراد آیت کی انتہا ہے جس کے بعد اس اور اگلی آیت کے درمیان علامت فصل لکھی جاتی ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے: ((کُلُّ رَأسِ آیۃٍ فَاصِلۃٌ، وَلَیْس کُلُّ فَاصِلۃٍ رَأْسُ آیۃٍ، فَالْفَاصِلۃُ نِعمَ النوعین وَائِراسُ الایَۃ وتجْمَعُ الضَّرْبَیْن بعدھا۔)) ہر راس الآ یہ فاصلہ ہے لیکن ہر فاصلہ راس الآیۃ نہیں ہے کیوں کہ فاصلہ علیحدگی کو دونوں اقسام پر بولا جاتا ہے جب کہ راس الآیۃ (اختتام آیت) صرف دو آیات کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے۔ لوگوں میں معروف علم بدیع کی زبان میں ایسی چیز کو سجع کا نام دیا جاتا ہے، لیکن اکثر علماء اس وصف (سجع) کا اطلاق قرآن پر نہیں کرتے؛ کیوں کہ یہ کلام ادیب لوگوں کے کلام، انبیاء کے بیانات اور بلیغ لوگوں کے اسلوب سے بہت بلند تر ہے، لہٰذا علماء فاصلے اور سجع کے درمیان فرق کرتے ہوئے کہتے ہیں : قرآن میں فاصلے معنی کے لحاظ سے ہیں ، بذاتہ ان کا کوئی مقصد نہیں ہے۔ جب کہ سجع وہ ہوتی ہے جس کا ایک خاص لحاظ رکھا جائے اور اسے معنی کے مطابق ڈھالا جائے؛ کیوں کہ اس میں کلام کو مسلسل ایک ہی وزن پر لایا جاتا ہے۔ قاضی ابوبکر باقلانی قرآن میں سجع ثابت کرنے کی کوشش کرنے والوں کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں : ان لوگوں کا دعویٰ صحیح نہیں ہے، اگر قرآن میں سجع ہوتی تو لوگوں کے کلام کے اسلوب سے خارج ہوتی؛ کیوں کہ اگر اس میں داخل ہوتی تو پھر قرآن کا اعجاز باقی نہ رہتا۔ اگر یہ کہنا جائز ہو کہ قرآن ایک عاجز کرنے والی سجع ہے تو پھر ان کے لیے یہ کہنا بھی جائز ہوگا کہ قرآن معجزانہ اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ سجمع تو عرب کے کاہنوں کی پسندیدہ چیز تھی۔ قرآن سے سجع کی نفی کرنا، اشعار کی نفی کرنے سے بھی زیادہ ضروری ہے؛ کیوں کہ شعر کے برعکس کہانت نبوت کی زیادہ مخالف ہے اور ان کے دلوں میں جو سجع کا وہم ہوا ہے وہ باطل ہے۔ کیوں کہ قرآن کریم کا سجع کی صورت میں ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ یہ سجع ہی ہے اس لیے کہ سجع وہ کلام ہوتا ہے جس میں معنی