کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 217
مہیا ہوئی۔
ابتدا میں اہلِ علم اس ڈر سے اسے ناپسند کرتے تھے کہ کہیں یہ چیز قرآن میں اضافے کے مترادف نہ ہو۔ ان کی دلیل سیدنا ابنِ سعود رضی اللہ عنہ کا قول تھا کہ ((جَرِّ دُوا القُرْآنَ وَلَا تَخُطُّوہُ بِشَیْئٍ)) یعنی قرآن کریم کو ہر قسم کی آمیزش سے محفوظ رکھو۔ جب کہ بعض لوگ نقطوں کو جائز اور دس آیات یا ابتدائی آیات کے فرق کو ظاہر کرنے والی علامات کو ناجائز سمجھتے تھے۔
حلیمی کہتے ہیں : قرآن میں دس یا پانچ آیات کی نشان دہی کرنے والی اور اسی طرح سورتوں اور آیات کی تعداد کے لیے وضع کی گئی علامات کو اہلِ علم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مذکورہ قول کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے، لیکن نقطے جائز ہیں کیوں کہ ان کی شکل وصورت ایسی نہیں ہے کہ جس سے ایسی چیز کے قرآن ہونے کا وہم ہو جو قرآن نہیں ہے، بلکہ یہ تو پڑھے جانے والے الفاظ کی شکل کو واضح کرتے ہیں ، لہٰذا ضرورت مند کے لیے ان کو لکھنا جائز ہے۔
پھر ایک وقت آیا کہ اس چیز کو مباح اور مستحب قرار دے دیا گیا۔ ابن ابی داؤد حسن بصری اور ابن سیرین سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: قرآن کے نقطے لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح ربیعہ بن ابی عبدالرحمان کا قول ہے، اعراب لگانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں : قرآن میں نقطے اور اعراب لگانا مستحب ہے، کیوں کہ اس سے آدمی لحن اور تحریف سے بچ جاتا ہے۔ (انظر الاتقان: ۲/۱۷۱)
چناں چہ آج قرآن کے رسم الخط کی خوبصورتی، خط عربی میں اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔
فاصلے اور اختتام آیت کی علامات:
فواصل اور آیت کے اختتام کی علامات بدولت قرآن کریم کو ایک منفرد امتیاز حاصل ہے۔
فاصلہ:
وہ علامت جس کی وجہ سے ایک کلام اپنے بعد والے کلام سے علیحدہ ہو جائے، وہاں کبھی آیت کا اختتام ہوتا ہے اور کبھی نہیں اور فاصلہ وہاں آتا ہے جہاں خطابی کلام کا اختتام ہو رہا ہو۔ اسے فاصلہ اس لیے کہا جاتا کہ یہاں کلام علیحدہ ہو رہی ہوتی ہے۔