کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 216
٭ ہمزہ محذوفہ کو حرف کے بغیر سرخ رنگ ہمزہ کی شکل میں لکھا گیا۔
٭ ب سے پہلے ن اور تنوین پر سرخ رنگ میں قلاب کی علامت لکھی گئی۔
٭ حرفِ حلقی سے پہلے سکون، ادغام اور اخفاء کی صورت میں خالی چھوڑ دیا جاتا۔
٭ ہر ساکن کو ساکن لکھا گیا۔
٭ مدغم ہونے والے حرف کو خالی چھوڑ کر بعد والے حرف پر شد کی علامت لگائی جاتی، لیکن اگر ’’ت‘‘ کے بعد ’’ط‘‘ ہوتی تو اس پر سکون کی علامت لکھی جاتی جیسے فَرَّطْتُّ
پھر جب تیسری صدی ہجری آئی تو مصحف کے رسم الخط میں مزید نکھار آگیا اور لوگ خوبصورت انداز کتابت اور امتیازی علامات لگانے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگے، اس دور میں علامات میں یہ جدت پیدا ہوئی۔
٭ مشدد حرف کے لیے قوس (کمان) کی صورت میں علامت لگائی گئی۔
٭ الف وصل کے لیے مٹکے کی طرح کی علامت لگی جو اس کے اوپر نیچے یا درمیان میں ہوتی نیز اس سے پہلے فتح کسرہ یا ضمہ کی صورت میں تھی۔
اس کے بعد لوگوں نے سورتوں کے نام اور آیات کی تعداد ذکر کرنے اور ایسے اشارات لگانے میں کام کیا جن کی مدد سے آیات کے اختتام کا پتا چلتا، نیز رموزواوقاف کے لیے درجِ ذیل علامات رائج ہوئیں :
٭ وقف لازم کے لیے (م)
٭ جہاں وقف کرنا منع ہو اس کے لیے (لا)
٭ وقف جائز کے لیے (ج)
٭ وقف جائز، جہاں ملانا بہتر ہو اس کے لیے (صلی)
٭ وقف جائز، جہاں وقف بہتر ہو اس کے لیے (قلی)
٭ تعانق یعنی جہاں دو وقف اکٹھے ہو رہے ہوں لیکن ایک جگہ وقف درست ہو اور دوسری جگہ جائز نہ ہو، اس کے لیے (…)
اسی طرح اجزاء اور حزب کے لیے بھی علامات مقرر ہوئیں ، جن کی بدولت بہت خوبصورتی