کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 215
پھر والی بصرہ زیاد کے پاس جا کر کہنے لگے: جو کام آپ نے مجھ سے کہا تھا میں کرنے کے لیے تیار ہوں ۔ زیاد نے اس سے پہلے انہیں کہا تھا کہ آپ ایسی علامات لگا دیں جس سے لوگ کتاب اللہ کو پہچان سکیں ، لیکن ابوالاسود نے بات ماننے میں تاخیر کر دی یہاں تک کہ یہ واقعہ رونما ہوگیا۔ چناں چہ یہیں سے انہوں نے اپنی کوششیں شروع کر دیں اور انہوں نے فتح کی علامت نقطہ کی صورت میں حرف کے اوپر، کسرہ کی علامت نقطہ کی صورت میں حرف کے نیچے اور ضمہ کی علامت نقطہ کی صورت میں حرف کے اجزاء کے درمیان لکھی۔ اسی طرح سکون کی علامت دو نقطوں کے ساتھ لکھی۔
امام سیوطی رحمہ اللہ ’’الاتقان‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ابوالاسود نے ہی سب سے پہلے یہ کام کیا تھا، لیکن زیاد کے حکم سے نہیں بلکہ عبدالملک بن مروان کے حکم سے کیا تھا اور اس وقت لوگوں کو مصحف عثمانی پڑھتے ہوئے چالیس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ یہاں تک کہ عبدالملک کی حکومت آئی تو تصحیفات نے زور پکڑا اور عراق میں پھیل گئیں تو حکمرانوں کو نقطے لگانے اور اعرابی شکل دینے کی فکر لاحق ہوئی۔
اس بارے کچھ اور روایات بھی آتی ہیں جن میں اس کام کی نسبت حسن بصری، یحییٰ بن یعمر اور نصر بن عاصم لیثی کی طرف کی جاتی ہے لیکن اس بارے زیادہ مشہور ابوالاسود دؤلی ہی ہیں ہو سکتا ہے کہ مذکورہ لوگوں نے رسم الخط کو مزید خوبصورت بنانے اور آسان کرنے کے لیے کوششیں کی ہوں ۔
مصحف کے رسم الخط میں تبدریج حسن پیدا ہوتا رہا ہے، شروع میں نقطوں کے ذریعے اعرابی شکل دی گئی تو فتحہ حرف کے پہلے حصے پر ایک نقطے کی شکل میں تھا، ضمہ حرف کے آخر میں اور کسرہ پہلے حصے کے نیچے۔
پھر حروف سے ماخوذ حرکات کے ساتھ انہیں ضبط کیا گیا، یہ کام خلیل نے کیا تھا۔ اس طرح فتحہ لمبائی کی صورت میں حرف کے اوپر، اسی طرح کسرہ نیچے اور ضمہ چھوٹی سی واؤ کی صورت میں حرف کے اوپر لکھا گیا اور تنوین کی صورت میں اسی طرح کی ایک واؤ کا اضافہ کیا جاتا۔ اسی طرح درجِ ذیل چیزوں کا اضافہ کیا گیا:
٭ الف محذوفہ اور اس کے بدل کو اس کی جگہ پر سرخ رنگ میں لکھا گیا۔