کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 214
باعث بنے گی جو انتہائی دقت سے کتابتِ قرآن کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ حالانکہ ہر وہ شخص جسے قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی عادت ہے اور قرآن کا خیال رکھتا ہے وہ کلمات پر دیے ہوئے اشارات سے ہی املاء کے فرق کو سمجھ جاتا ہے۔ نیز جو لوگ اپنی تعلیمی زندگی یا اپنے بچوں کے ساتھ پڑھنے میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں وہ اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ مصحف کو پڑھنے کے لیے صرف شروع شروع میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ہی آسان ہو جاتا ہے۔ امام بیہقی ’’شعب الایمان‘‘ میں لکھتے ہیں : جو شخص مصحف لکھنا چاہے اسے اس رسم الخط کا لحاظ رکھنا ضروری ہے جس میں صحابہ کرام نے مصاحف لکھے تھے۔ ان کی مخالفت کرے اور نہ ہی ان کی کتابت میں تبدیلی کرے؛ کیوں کہ وہ بہت علم رکھنے والے، زبان اور دل کے سچے اور ہم سے بڑھ کر امانت دار تھے۔ ہمارے لیے کسی بھی صورت مناسب نہیں کہ ان کا رسم الخط تبدیل کریں ۔ عثمانی رسم الخط کی خوبیاں : عثمانی مصاحف نقطوں اور اعراب سے خالی تھے، اس کے لیے انہوں نے صحیح عربی سلیقے پر اعتماد کیا تھا، الفاظ کو شکل دینے کے لیے اعراب اور نقطوں کی ضرورت نہیں تھی۔ پھر جب کثرتِ اختلاط کی وجہ سے عربی زبان خراب ہونے لگی تو حکمرانوں نے مصاحف کے الفاظ کو اعراب اور نقطے وغیرہ لگا کر اس کی کتابت کو خوبصورت بنانے کی ضرورت محسوس کی تاکہ یہ چیز صحیح قرا ء ت کے لیے معاون ثابت ہو سکے۔ اس کام کے لیے سب سے پہلی کاوش کے بارے اہلِ علم کا اختلاف ہے۔ بہت سے اہلِ علم کے مطابق سب سے پہلے یہ کام ابو الاسود دؤلی نے کیا تھا۔ جنہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حکم پر عربی زبان کے قواعد وضوابط وضع کیے۔ اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ ابوالاسود نے ایک آدمی کو سنا وہ آیت ﴿اَنَّ اللّٰہَ بَرِیْٓئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَ رَسُوْلُہٗ﴾ (التوبہ: ۳) میں کلمہ رسولہ کو لام کے کسرہ کے ساتھ رسولِہٖ پڑھ رہا تھا، اس واضح غلطی کی وجہ سے ابوالاسود پریشان ہوگئے اور کہنے لگے: ’’اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے براء ت کا اظہار نہیں کر سکتے،