کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 213
ہیں ، جیسے ان کے لیے آسان ہوتا ہے اس میں کسی کو گناہگار یا برا نہیں سمجھا جاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملے میں کسی خاص حد کا پابند نہیں گیا جیسا کہ انہیں قراء ت ایک حرف پر کرنے کا پابند کیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ رسم الخط تو علامات ورسوم کا نام ہے جو اشارات اور عقودورموز کے قائم مقام ہے۔ چناں چہ ہر رسم الخط ایک ایسے کلمہ پر دلالت کرتا ہے جو اس کے ساتھ قراء ت کی صورت میں مقید ہوتا ہے وہ رسم کی کوئی بھی صورت ہو، کاتب کے لیے اسے درست اور صحیح لکھنا واجب ہوتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص یہ دعویٰ کرتا ہے کہ لوگوں پر ایک رسم الخط میں قرآن لکھنا واجب ہے تو اس پر واجب ہے کہ اپنے دعویٰ کی دلیل پیش کرے لیکن اس کے پاس دلیل کہاں سے آئے۔ اس رائے کے پیش نظر موجودہ دور میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ قرآن کریم کو ایسے اصطلاحی قواعدوضوابط کے ساتھ لکھا جائے جو لوگوں میں معروف ہوں ؛ تاکہ طلبہ اور پڑھنے والوں پر اس کی قراء ت آسان ہو جائے اور کوئی بھی طالب علم تلاوت کرتے ہوئے روزمرہ کی اصطلاحی کتابت اور کتابتِ قرآنی میں فرق محسوس نہ کرے۔ میرے خیال میں دوسری رائے ہی راجح ہے کہ قرآن کی کتابت اسی عثمانی رسم الخط میں کرنا واجب ہے جو ان کے مصحف میں ہے۔ یہی اصطلاحی رسم الخط ہے جو عثمان رضی اللہ عنہ کے دور سے امت میں چلتا آرہا ہے۔ اس کی حفاظت کرنے والے اس کے حروف کو تبدیلی سے محفوظ رکھنے کے قوی ضامن ہیں اور اگر ہر دور میں رائج ہونے والی رسم الخط میں اسے لکھنے کی اجازت دے دی جائے تو مصحف کا خط ہر دور میں تبدیل ہو جاتا بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی دور میں املاء کے قواعدوضوابط میں اختلاف ہو اور بعض کلمات کی کتابت مختلف مقامات پر مختلف ہو۔ رسم الخط کے بارے قاضی ابوبکر باقلانی نے جو اختلاف ذکر کیا ہے وہ ایک الگ چیز ہے اور املائی رسم الخط الگ چیز ہے، رسم الخط کا اختلاف حرف کی شکل وصورت بدلتا ہے نہ کہ رسم کلمہ کو۔ اس بات کو دلیل بنانا کہ اگر رسمِ قرآن اور اصطلاحی رسم الخط کے اختلاف کو ختم کر دیا جائے تو طلبا و معلّمین پر قرآن کریم کی قراء ت آسان ہو جائے گی۔ تو یہ چیز اس کام میں کمزوری دکھانے کا