کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 212
ان سے مراد وہ واؤ اور الف ہیں جو لکھنے میں ہوتے ہیں لیکن پڑھتے وقت پڑھے نہیں جاتے جیسے ’’اوتوا‘‘ میں ہوتے ہیں ۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : واؤ، الف، ی یا دیگر حروف میں مصحفِ عثمانی کے رسم الخط کی مخالفت کرناحرام ہے۔ (انظر ’’الاتقان‘‘: ۲/۱۶۷، ’’والبرہان‘‘ للزرکشی: ۲/۳۷۹) ۳۔ ایک جماعت کا مذہب ہے کہ رسمِ عثمانی اصطلاحی ہے اس کی مخالفت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جب لوگ لکھنے کے لیے ایک خاص رسم الخط کو اپنا لیں اور وہ ان کے درمیان رائج ہو جائے تو اسے استعمال کرنا جائز ہے۔ قاضی ابوبکر الباقلانی اپنی کتاب ’’الانتصار‘‘ میں لکھتے ہیں : کتابت کے بارے اللہ تعالیٰ نے امت پر کوئی چیز فرض نہیں کی، قرآن کریم کی کتابت کرنے والے اور مصاحف کے خطاط اگر کسی خاص رسم الخط کو اختیار نہیں کرتے تو درست ہے؟ کیوں کہ کسی رسم الخط کو اپنانا اور کسی دوسرے کو چھوڑنا واجب نہیں ہے؛ کیوں کہ وجوب کے لیے سماعت یا توقیف کا ہونا ضروری ہے۔ جب کہ قرآن کی نصوص اور مفہوم میں یہ بات نہیں ملتی کہ قرآن صرف ایک خاص صورت میں ہی لکھنا جائز ہے کسی اور انداز کتابت میں لکھنا جائز نہیں ہے، اس بات کی دلیل حدیث اور اجماعِ امت سے بھی نہیں ملتی اور نہ ہی قیاسِ شرعی سے کوئی دلیل نکلتی ہے بلکہ سنت میں تو آسان رسم الخط کو اپنانے کے جواز پر دلیل ملتی ہے کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے لکھنے کا حکم دیا کرتے تھے لیکن آپ نے کوئی خاص انداز مقرر کیا اور نہ ہی کسی سے منع کیا۔ اسی لیے مصاحف کے رسم الخط مختلف تھے، کچھ کلمہ کو لفظ کے مخرج کے مطابق لکھتے اور بعض کمی بیشی کر لیا کرتے تھے کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنا ایک اصطلاح ہے اور لوگوں پر اس کے احوال پوشیدہ نہیں تھے۔ یہی وجہ تھی کہ کو فی حروف اور خط اول میں لکھنا جائز تھا، کلام کو ’’ک‘‘ کی صورت دے دی جائے، الف کو ٹیڑھا کر دیا جائے یا کسی بھی اور طریقے سے لکھ لیا جائے۔ اسی طرح یہ بھی جائز تھا کہ مصحف کو پرانے خط یا ہجاء میں لکھا جائے اسی طرح جدید خط اور ہجا میں لکھنا بھی جائز ہے۔ نیز ان کے درمیان لکھنا بھی جائز ہے۔ مصاحف کے رسم الخط اور اس کے بہت سے حروف کی شکل صورت مختلف ہوتی ہے اور تمام لوگ ہر ایک کو اس کی عادت کے مطابق لکھنے کی اجازت دیتے