کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 211
یہ حضرات اس رسم الخط میں ایسے اسرار تلاش کرتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسمِ عثمانی میں بہت خفیہ معانی پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے فرمان:
﴿وَالسَّمَآئَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْدٍ﴾ (الذاریات: ۴۷)
میں لفظ اَیْدٍ کی کتابت میں ایک ی کا اضافہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ عظیم تر قوت کی طرف اشارہ ہے جس سے اس نے آسمان بنایا اور مشہور قاعدہ ہے۔ ((زِیَادَۃُ المَبْنٰی تَدُلُّ عَلٰی زیادۃِ المعنیٰ))۔ یعنی کلمہ میں کسی حرف کا اضافہ معنی میں مبالغہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے مطابق اس کی قوت کسی قوت سے مشابہت نہیں رکھتی۔
لیکن اس رسم الخط کے توقیفی ہونے سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی مروی نہیں ہے۔ یہ تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں ان کی رضامندی سے لکھنے والوں نے طے کیا ہے اور سیدنا عثمان نے ایک قانون بنا دیا تھا کہ جب تمہارا (قریشی لوگوں ) اور زید کا اختلاف ہو جائے تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا؛ کیوں کہ یہ ان کی زبان میں نازل ہوا تھا، یہ ضابطہ اس وقت بنایا تھا جب لفظ التابوت کی کتابت میں اختلاف ہوا تھا سیدنا زید التَّابُوہ کہتے تھے اور قریشی التابوت۔ پھر جب یہ معاملہ سیدنا عثمان کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا: التابوت ہی لکھو کیوں کہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے۔
۲۔ بہت سے علماء کا مذہب ہے کہ رسم عثمانی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے توقیفی نہیں بلکہ اس رسم الخط کو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے پسند کیا تھا پھر امت نے اسے قبول کیا اور اس کا التزام واجب ہو گیا لہٰذا اب اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔
اشہب کہتے ہیں : امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا قرآن کو لوگوں کے جدید طرزِ کتابت پر لکھا جا سکتا ہے تو انہوں نے فرمایا: نہیں صرف پہلی کتابت پر ہی لکھا جا سکتا ہے۔ (رواہ ابوعمر والدانی فی ’’المقنع‘‘)
اشہب کہتے ہیں : اس بارے امام مالک کا پوری امت میں کوئی مخالف نہیں ۔ ایک جگہ فرماتے ہیں : امام مالک سے قرآن کے حروف مثلاً واؤ اور الف وغیرہ کے بارے پوچھا گیا کہ اگر یہ حروف مصحف میں ہوں تو انہیں تبدیل کیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں ۔ ابوعمرو کہتے ہیں :