کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 210
کیا جائے تو تعداد ۱۱۳ ہے۔
آیات کی تعداد چھ ہزار دو سو ہے۔
سب سے لمبی آیت آیتِ دین جب کہ سب سے لمبی سورت البقرہ ہے۔
اس تقسیم سے لوگوں کے لیے حفظ آسان ہو جاتا ہے، درس وتدریس میں آسانی ہوتی ہے اور پڑھنے والے کو پتا چلتا ہے کہ اس نے اپنے دین کے اصول اور احکام شریعت میں سے بہت کچھ حاصل کر لیا ہے۔
عثمانی رسم الخط:
گزشتہ اوراق میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جمع قرآن کے بارے یہ بات گزر چکی ہے کہ انہوں نے سیدنا زید بن ثابت اور تین قریشیوں کو ذمہ داری سونپی تھی اور ان کے لیے ایک خاص رسم الخط کو منتخب کیا تھا۔ چناں چہ انہی کی طرف نسبت کرتے ہوئے علماء اس رسم الخط کو عثمانی رسم الخط کا نام دیتے ہیں ۔ اس کے حکم کے بارے اہلِ علم کا اختلاف ہے۔
۱۔ بعض کا کہنا ہے قرآن کے لیے رسم عثمانی کا استعمال توقیفی ہے، لہٰذا قرآن کی کتابت اسی رسم الخط میں ہونی چاہیے اور ان کے نزدیک یہی رسم الخط مقدس ہے۔ ان لوگوں نے اس توقیف کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کاتبِ وحی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو بسم اللّٰہ الرحمان الرحیم اسی معروف صورت میں لکھنے کا حکم صادر فرمایا تھا اور آپ نے فرمایا: اپنا قلم اپنے بائیں کان پر رکھو، اس سے بات یاد رہے گی۔
ابن مبارک اپنے استاد الشیخ عبدالعزیز الدباغ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: صحابہ اور دیگر لوگوں کے لیے ایک ہی رسم قرآنی تھا اور اس کی توقیف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اسی معروف شکل میں لکھنے کا حکم دیا تھا جس میں کبھی الف زیادہ ہوتا ہے اور کبھی کم، اس میں ایسے راز پنہاں ہیں جنہیں عقلِ انسانی پا نہیں سکتی۔ یہ ایک ایسا راز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دیگر کتبِ سماویہ کو چھوڑ کر اسی کتابِ عزیز کے لیے مخصوص کیا ہے جس طرح قرآنی نظم ایک معجزہ ہے اسی طرح اس کا خط بھی معجزہ ہے۔