کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 208
قرآن کو آیات اور سورتوں کی ترتیب کے ساتھ ایک حرف پر جمع کر دیا گیا اور امت اس پر متفق ہوگئی تو انہوں نے اپنے مصاحف چھوڑ دیے ، اگر یہ ترتیب اجتہادی ہوتی تو وہ اپنے اپنے مصاحف کو نہ چھوڑتے۔
سورت الانفال اور التوبہ کے بارے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کا دارومدار یزید الفارسی پر ہے جسے امام بخاری نے الضعفاء میں ذکر کیا ہے اور اس میں سورتوں کی ابتداء میں بسملہ کے اثبات کا بھی شک ہوتا ہے گویا عثمان اسے اپنی رائے کے ساتھ رکھنے یا ختم کرنے کے مجاز تھے، اسی لیے الشیخ احمد شاکر نے مسند احمد میں اس حدیث پر تعلیق لکھتے ہوئے کہا ہے کہ اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے۔ نیز اس میں زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ صرف ان دو سورتوں کی ترتیب نہیں ہے۔
رہی تیسری رائے کہ بعض سورتوں کی ترتیب توقیفی اور بعض کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اجتہاد کے ساتھ ہے تو اس کے تمام تر دلائل میں وہی نصوص بیان کی گئی ہیں جن میں توقیفی ہونے کا ذکر ہے جب کہ اجتہادی قسم پر کوئی مستند دلیل نہیں ہے اور توقیفی کا اپنے دلائل سے ثابت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان کے علاوہ باقی اجتہادی ہیں ۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ آیات کی ترتیب کی طرح سورتوں کی ترتیب بھی توقیفی ہے۔ ابوبکر بن الانباری کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے مکمل قرآن آسمان دنیا پر اتارا، پھر اسے بیس سے زائد حصوں میں تقسیم کیا کوئی سورت کسی رونما ہونے والے واقعہ کے بارے نازل ہوتی تھی اور کوئی آیت کسی سوال کے جواب میں ، لہٰذا جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آیات اور سورتوں کی جگہ کے بارے واقفیت دے دیا کرتے تھے اس لیے سورتیں بھی آیات اور حروف کی طرح مرتب کی گئیں اور یہ سب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہوا۔
چناں چہ جو شخص قرآن کی کسی سورت کو مقدم یا کسی کو مؤخر کرے تو اس نے نظمِ قرآنی کو خراب کر دیا۔ امام کرمانی ’’البرہان‘‘ میں لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں بھی سورتوں کی یہی ترتیب ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہر سال اسی ترتیب سے جبریل علیہ السلام سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی آپ