کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 207
((اِقْرَائِ الزَّہْرَاوَیْنِ: اَلْبَقَرَۃَ وَ آلِ عِمْرَانَ۔)) (رواہ مسلم) ’’دو چمکدار سورتوں البقرہ اور آل عمران کی تلاوت کیا کرو۔‘‘ نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ ہر رات آپ جب اپنے بستر پر آتے تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو اکٹھا کر کے ان میں پھونک مارتے اور سورۃ اخلاص ، الفلق اور الناس کی تلاوت کرتے۔ (رواہ البخاری) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’بعض یا اکثر سورتوں کو ایک دوسرے پر مرتب کرنا توقیفی ہونے میں رکاوٹ نہیں ہے۔ ان کی دلیل حذیفہ ثقفی کی حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ’’قرآن کریم کا کچھ حصہ میرے سامنے تھا، میرا ارادہ تھا کہ میں اسے پورا کیے بغیر نہ نکلوں ‘‘ پھر ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگ قرآن کے حصے کیسے بناتے ہو؟ تو انہوں نے کہا: ہم پہلا حصہ(منزل) تین، پانچ، سات، نو، گیارہ اور تیرہ سورتوں کے حصے بناتے ہیں اور مفصل سورتوں کا حصہ سورۃ ق سے لے کر قرآن کے اختتام تک ہے۔‘‘[1] (اخرجہ احمد وابوداود، وانظر الاتقان، ۱/۶۳) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : ’’اس بات میں دلیل ہے کہ مصحف میں سورتوں کی موجودہ ترتیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھی نیز یہ بھی احتمال ہے کہ شاید اس وقت صرف مفصل کے حصے کو مرتب کیا گیا تھا باقی سورتوں کو نہیں ۔ ان تین مختلف آراء سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ: دوسری رائے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ سورتوں کی ترتیب اجتہادِ صحابہ کا نتیجہ ہے تو اس پر کوئی قابل اعتماد دلیل نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے مخصوص مصاحف میں سورتوں کی ترتیب کا اختلاف ایک اختیاری معاملہ تھا اور وہ بھی قرآن کے ترتیب کے ساتھ جمع ہونے سے پہلے تھا۔ پھر جب عہد عثمانی میں
[1] ان سے مراد قرآن کی سات منزلیں ہیں ۔ (مترجم)