کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 206
چناں چہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مصحف کی ترتیب نزولِ قرآن کے مطابق تھی، پہلے سورت اقراء پھر مدثر، نٓ، القلم، مزمل اور اسی طرح مکی اور پھر مدنی سورتوں کے اختتام تک۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے مصحف میں سب سے پہلے سورۃ البقرہ پھر سورۃ النساء اور پھر آلِ عمران تھی جب کہ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے مصحف میں پہلے سورۃ الفاتحہ پھر بقرہ، اس کے بعد نساء اور پھر سورۃ آل عمران تھی۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا وجہ بنی کہ آپ لوگوں نے سورۃ الانفال جو کہ مثانی اورسورۃ براء ۃ جس کا تعلق میئن سے ہے ان دونوں کو ملا دیا اور ان کے درمیان ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کی سطر نہیں لکھی اور آپ نے اسے انہیں سات لمبی سورتوں میں شامل کر دیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سی سورتیں نازل ہوا کرتی تھیں ، چناں چہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی چیز نازل ہوتی تو آپ کسی لکھنے والے کو بلا کر فرماتے: ’’اس آیت کو اس سورت میں رکھو جس میں یہ یہ چیز ذکر کی گئی ہے‘‘ سورۃ الانفال مدینہ میں پہلے نازل ہونے والی سورتوں میں سے تھی، جب کہ سورت براء ت (توبہ) قرآن کے آخر میں نازل ہوئی لیکن ان دونوں کا قصہ آپس میں مشابہت رکھتا تھا تو میں نے سمجھا شاید اس کا تعلق اس (انفال) سے ہی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے لیکن آپ نے ہم سے وضاحت نہیں کی کہ یہ اس سے ہے (یا نہیں )، اسی لیے میں نے ان دونوں سورتوں کو آپس میں ملا دیا اور ان کے درمیان ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘ کی سطر نہیں لکھی نیز اسے سات طویل سورتوں میں رکھ دیا۔ (اخرجہ احمد وابو داؤد والترمذی والنسائی وابن حبان والحاکم) تیسرا قول: بعض سورتوں کی ترتیب توقیفی جب کہ بعض کی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اجتہاد سے ہے، کیوں کہ کچھ سورتوں کی ترتیب کے بارے ایسے دلائل ملتے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ان کی ترتیب عہد نبوت میں موجود تھی، جیسا کہ سات لمبی سورتیں ، حوامیم اور مفصل سورتوں کی ترتیب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں موجود تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: