کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 205
پہلا قول:
سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایسے ہی لکھوایا جس طرح جبریل علیہ السلام نے آپ کو اپنے رب کے حکم کے مطابق بتایا تھا۔ چناں چہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قرآن کی سورتیں بھی اسی طرح مرتب تھیں جس طرح اس کی آیات مرتب تھیں اور وہی ترتیب آج ہمارے پاس ہے۔ یہی مصحفِ عثمانی کی ترتیب تھی جس میں کسی بھی صحابی نے اختلاف نہیں کیا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر (صحابہ کا)اجماع ہے۔ اس رائے کی تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز میں بعض سورتیں ترتیب کے ساتھ پڑھی ہیں ۔ ابن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مفصل سورتوں کو ایک رکعت میں جمع کر لیا کرتے تھے۔ اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے سورت بنی اسرائیل، کہف، مریم، طٰہ اور الانبیاء کے بارے فرمایا کہ یہ وہ پرانی سورتیں ہیں جو مجھے یاد تھیں ۔‘‘ اسی طرح انہوں نے ان کا ذکر موجودہ ترتیب کے ساتھ کیا۔
ابن وھب کے طریق سے مروی ہے کہ سلیمان بن بلال کہتے ہیں : ربیعہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: سورت البقرہ اور آل عمرآن کو شروع میں کیوں لایا گیا حالانکہ ان سے پہلے اسی سے زیادہ مکی سورتیں نازل ہو چکی تھیں ، جب کہ یہ سورتیں مدینہ میں نازل ہوئی تھیں ؟ تو انہوں نے فرمایا: انہیں اس لیے شروع میں رکھا گیا ہے کیوں کہ قرآن کو اس کے علم کے مطابق جمع کیا گیا ہے، جس نے اسے تالیف کیا ہے، پھر فرمانے لگے: یہی آخری جواب ہے، اس بارے مزید سوال نہ کیا جائے۔
ابن حصار کہتے ہیں : سورتوں کی ترتیب اور آیات کو ان کی جگہوں پر رکھنا سب کچھ وحی کے مطابق تھا، کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ’’اس آیت کو فلاں جگہ پر رکھو۔‘‘ لہٰذا اس ترتیب کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کے مطابق ہونے کا یقین، نقل متواتر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اسی ترتیب کے ساتھ مصحف میں درج کرنے کے اجماع سے حاصل ہوتا ہے۔
دوسرا قول:
سورتوں کی ترتیب صحابہ کرام کے اجتہاد کی بناء پر ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے مصاحف میں ترتیب کا اختلاف تھا۔