کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 204
بعض احادیث ایسی ہیں جو کسی خاص آیت کی جگہ کو واضح کرتی ہیں ، مثلاً سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جتنا آیت کلالہ کے بارے پوچھا اتنا کسی اور آیت کے بارے نہیں پوچھا حتیٰ کہ آپ نے میرے سینے میں اپنی انگلی چبھوتے ہوئے فرمایا:
((تَکْفِیْکَ اٰیَۃُ الصَّیْفِ الَّتِیْ فِی اٰخِرِ سُوْرَۃِ النِّسَائِ۔))
گرمی میں نازل ہونے والی آیت جو سورت النساء کے آخر میں ہے، وہی تمہیں کافی ہے۔ (رواہ مسلم)
بہت سی سورتوں کے بارے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آیات کی ترتیب کے ساتھ نماز یا خطبہ جمعہ میں تلاوت کیا کرتے تھے، جیسے سورۃ البقرہ، آل عمران اور نساء وغیرہ اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ نے نماز مغرب میں سورت الاعراف کی قراء ت کی، اسی طرح جمعہ کے دن نماز فجر میں الٓمٓ السجدہ اور سورۃ الدھر کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ نیز آپ اپنے خطبہ میں سورت قٓ پڑھتے اور جمعہ کی نماز میں سورت الجمعہ اور سورۃ المنافقون کی تلاوت کیا کرتے تھے۔
جبریل علیہ السلام بھی ہر سال ماہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سنایا کرتے تھے اور آپ کی زندگی کے آخری سال انہوں نے دو مرتبہ سنایا اور یہ سنانا بھی آج کی معروف ترتیب کے مطابق ہی تھا۔ اس لحاظ سے قرآن کی آیات کی ترتیب توقیفی ہے اور ایسے ہی ہے جیسے آج ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
امام سیوطی مخصوص سورتوں کے بارے مروی احادیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام کی موجودگی میں آیات کی تلاوت کرنا بتاتا ہے کہ سورتوں کی آیات کی ترتیب توقیفی ہے، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کوئی ایسی ترتیب نہیں دے سکتے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاوت کی ترتیب کے خلاف ہوتی تو اس طرح یہ چیز تواتر کی حد کو پہنچ جاتی ہے۔‘‘ (انظر الاتقان: ۱/۶۱)
سورتوں کی ترتیب:
سورتوں کی ترتیب کے بارے اہل علم کا اختلاف ہے: