کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 201
جواب یہ ہے کہ یہ تمام اقوال باطل ہیں جن کو کوئی سند نہیں ان تمام تر دعووں کی کوئی دلیل نہیں ہے اور ایسی باتیں کرنا حماقت و بے وقوفی کے علاوہ کچھ نہیں ۔ بعض اہل تشیع علماء ان بے بنیاد باتوں سے براء ت کا اعلان کرتے ہیں جب کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی اقوال بھی ان کے دعووں کے برعکس ہیں اور ان کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تواتر قرآن کے بارے اجماع کے قائل تھے، نیز انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جمع قرآن کے بارے فرمایا تھا: ((اَعْظَمُ النَّاسِ اَجْرًا فِی الْمَصَاحِفِ اَبُوْبَکْرٍ، رَحْمَۃَ اللّٰہِ عَلٰی اَبِیْ بَکْرِ ھُوَ اَوَّلُ مَنْ جَمَعَ کِتَابَ اللّٰہِ۔)) اسی طرح انہوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی جمع وتدوین کے بارے فرمایا: اے لوگو! اللہ سے ڈرو، عثمان رضی اللہ عنہ کو ’’حَرَّاقُ المصاحِف‘‘ (قرآن جلانے والا) کہنے سے بچو، اللہ کی قسم! انہوں نے ہم سب صحابہ کی موجودگی میں یہ کام کیا، نیز فرمایا: ’’اگر عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت میں والی ہوتا تو میں بھی مصاحف کے متعلق وہی فیصلہ کرتا جو عثمان نے کیا تھا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مذکورہ اقوال ان لوگوں کی زبانیں بند کرنے کے لیے کافی ہیں جو جھوٹ بولنے والے اور ان کی نصرت کا دعویٰ کرنے والے ہیں اور ان کے حمایتی بن کر بے بنیاد باتیں کرتے ہیں حالانکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ان کی ان باتوں سے بری ہیں ۔ (انظر مناہل العرفان، ص: ۴۶۴، ج ۱)