کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 200
انہوں نے معوذتین کو قرآن ہونے سے انکار کیا ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔ اسی طرح یہ اجماعِ امت کے بھی مخالف ہے۔ چناں چہ امام نووی رحمہ اللہ ’’شرح المھذب‘‘ میں فرماتے ہیں : ’’مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ معوذتین اور فاتحہ قرآن کا حصہ ہیں اور جو شخص ان کا انکار کرے وہ کافر ہے، رہی وہ بات جو ابن مسعود سے نقل کی جاتی ہے تو وہ باطل اور غیر صحیح ہے۔‘‘
ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ پر جھوٹ اور من گھڑت بات ہے۔‘‘
بالفرض اسے صحیح تسلیم بھی کر لیا جائے تو اسے اسی بات پر محمول کیا جا سکتا ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے معوذتین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا نہیں تھا، لہٰذا انہوں نے اس بارے توقف فرمایا۔
نیز ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا انکار امت کے اس اجماع کو ختم نہیں کرتا، معوذتین قرآن کا حصہ اور متواتر قراء ت ہے۔
اس قسم کی بات کا یہ جواب بھی دیا جا سکتا ہے کہ بیان کیا جاتا ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے مصحف میں سورت فتح بھی موجود نہیں تھی جب کہ سورت فاتحہ توام القرآن ہے اور اس کا قرآن ہونا کسی پر مخفی نہیں ہے۔
۳۔ غالی قسم کے شیعہ حضرات میں سے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے قرآن میں تحریف کی اور اس کی بعض آیات اور سورتوں کو چھوڑ دیا تھا۔ انہوں نے سورت النحل کی آیت نمبر ۹۲ کے الفاظ
﴿اُمَّۃٌ ہِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍ ﴾ (النحل: ۹۲)
میں تحریف کی اصل الفاظ اس طرح تھے:
((اَئِمَّتُکُمْ ھِیَ اَزْکٰی مِنَ اَئِمَّتِکُمْ۔))
اسی طرح سورت احزاب سے اہل بیت کے فضائل کو حذف کر دیا، جب کہ یہ سورت سورۃ الانعام کے برابر تھی۔ نیز سورۃ الولایۃ مکمل طور پر قرآن سے خارج کر دی۔ (معاذ اللہ) تو اس کا