کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 199
اللہ کے ارادے سے خارج ہے تو اللہ تعالیٰ نے ﴿اِِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ﴾ کہہ کر استثنا کا ذکر فرما دیا۔ یعنی جب وہ آپ کو بھلانے کا ارادہ کرے گا تو اسے اس کام سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ درحقیقت اس میں عدم نسیان کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
اہل علم کہتے ہیں کہ یہ استثناء اسی طرح ہے جیسے کوئی اپنے ساتھی سے کہتا ہے:
((اَنْتَ سَھِیْمِیْ فِیْمَا امْلِکُ اِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ۔))
جس چیز کا میں مالک ہوں تو اس میں میرا شریک ہے مگر جو اللہ چاہے تو اس میں وہ کسی چیز کا استثناء نہیں کر رہا ہوتا۔ اسی طرح نفی کے انداز میں اس کا استعمال بہت کم ہوتا ہے۔ سورت ہود میں بھی اسی طرح کا استثناء آیا ہے:
﴿وَ اَمَّا الَّذِیْنَ سُعِدُوْا فَفِی الْجَنَّۃِ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اِلَّا مَاشَآئَ رَبُّکَ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ.﴾ (ہود: ۱۰۸)
’’سعادت مند لوگ جنت میں ہوں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے جب تک زمین وآسمان ہیں ، مگر جو آپ کے رب نے چاہا ، کبھی نہ ختم ہونے والا عطیہ ہے۔‘‘
ایسے مقامات پر استثناء اس بات پر تنبیہ کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ یہ تابید وخلود محض اللہ تعالیٰ کے جود و کرم کی وسعت کی وجہ ہے، واجب اور حتمی نہیں اگر آنے والے وقت میں وہ اپنی دی ہوئی چیز واپس لینا چاہے تو اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے۔
احادیث میں جو یہ آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی یاد کی ہوئی بات کو بھول گئے تو اگر یہ بات درست بھی ہو تو یہ کتاب اللہ اور ان احکام کے علاوہ تھیں جن کی تبلیغ کا حکم دیا گیا تھا۔ اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی کہا گیا ہے وہ ملحدین کی دخل اندازی ہے۔ جس سے غافل لوگوں کی عقل متاثر ہوتی ہے، جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے پاک کیا ہے، انہیں وہ اپنے غلط افکارونظریات سے ملوث کرتے ہیں چناں چہ جو شخص صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم کی قدرومنزلت کو جانتا اور کتاب اللہ پر ایمان رکھتا ہے، اسے ایسی فضول باتوں سے کوئی لگاؤ نہیں ہونا چاہیے۔
۲۔ ان اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ قرآن میں ان چیزوں کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جو اس سے نہیں تھیں اور اس بات کی دلیل سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کو بناتے ہیں کہ