کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 198
تفسیر دوسری روایت کرتی ہے کہ ’’مجھے بھلا دی گئی تھیں تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسقاط (رہ جانے) سے مراد بھول جانا ہے نیز لفظ اَذْکُرَنِیْ (اس نے مجھے یاد دلا دیں ) سے بھی اس پر دلالت ہوتی ہے۔ اور ایسا نسیان جس سے تبلیغ میں خلل واقع نہ ہوتا ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز ہے۔ یہ آیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد تھیں ، کاتبین وحی نے انہیں لکھا، صحابہ نے انہیں اپنے سینوں میں محفوظ کیا اور ان کا حفظ اور کتابت حد تواتر کو پہنچا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کو بھول جانا جمع قرآن پر اثرانداز نہیں ہو سکتا۔ نیز اس حدیث سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس آدمی کی قراء ت سے جو کہ حفاظِ قرآن میں سے ایک تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھولے ہوئے الفاظ یاد آگئے، اسی لیے آپ نے فرمایا: ’’اس نے مجھے فلاں فلاں آیت یاد دلا دی ہے۔‘‘ ۲۔ ان لوگوں کا ایک شبہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سورۃ الاعلیٰ میں فرماتے ہیں : ﴿سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنسٰی. اِِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ﴾ (الاعلیٰ: ۶۔۷) اس آیت میں استثناء دلالت کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض آیات بھلا دی گئی تھیں ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھانے اور حفظ کرانے کا وعدہ کیا تھا اور آپ کو نسیان سے محفوظ رکھا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنسٰی.﴾ (الاعلیٰ: ۶) ہم آپ کو پڑھائیں گے تو آپ بھولیں گے نہیں اور اس آیت سے اس کا وہم کب لازم آتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ مختار کل ہے، فرمایا: ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَ.﴾ (الانبیاء: ۲۳) ’’جو وہ کرتا ہے اس سے سوال نہیں کیا جا سکتا اور ان لوگوں سے سوال کیا جائے گا۔‘‘ ﴿اِِلَّا مَا شَآئَ اللّٰہُ﴾ میں استثناء اس بات کو بیان کرنے کے لیے آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن پڑھانا اور نسیان سے محفوظ رکھنا اللہ تعالیٰ کے ارادے سے خارج نہیں ہے، کیوں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو کوئی چیز عاجز نہیں کر سکتی۔ چناں چہ شیخ محمد عبدہٗ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے وعدہ میں ابدیت اور لزوم پایا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کبھی یہ وہم پیدا ہو کہ قدرتِ الٰہیہ کی وسعت کسی دوسرے کو شامل نہیں اور یہ