کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 197
جو مصاحف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے تیار کروائے تھے آج ان میں سے ایک بھی موجود نہیں ہے۔ حافظ ابن کثیر کی کتاب ’’فضائل القرآن‘‘ میں جو یہ بات ملتی ہے کہ انہوں نے شام میں دمشق کی جامع مسجد میں ایک مصحف دیکھا تھا جو ایک باریک کھال پر لکھا ہوا تھا جو کہ شاید اونٹ کی کھال تھی تو اس بارے بیان کیا جاتا ہے کہ یہ شامی مصحف تھا، جو انگلینڈ منتقل کر دیا گیا تھا جب انگلینڈ روس کی سلطنت میں شامل ہوا تھا اور یہ مصحف وہاں لینن گراڈ کی لائبریری میں کچھ عرصہ تک رہا۔ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ ۱۳۱۰ہجری میں دمشق کی مسجد میں جل گیا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ۲۵ ہجری میں قرآن کو جمع کیا اور اسے ’’الجمع الثالث‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ ایک شبہ کا ازالہ: بعض خود غرض لوگ قرآن کی ثقاہت کو داغ دار کرنے اور انتہائی دقت سے اس کی جمع وترتیب میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہاں ہم ان کے کچھ اعتراضات اور ان کا رد پیش کرتے ہیں ۔ ۱۔ وہ کہتے ہیں : آثار سے پتا چلتا ہے کہ قرآن کی کچھ چیزیں ان مصاحف میں لکھنے سے رہ گئی ہیں جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہیں ، اس پر ان کے یہ دلائل ہیں : ۱۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سنا جو مسجد میں قراء ت کر رہا تھا تو آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس آدمی پر رحم فرمائے، اس نے مجھے فلاں سورت کی فلاں فلاں آیات یاد دلا دی ہیں ۔‘‘ ایک روایت میں ہے ’’میں نے فلاں فلاں آیت کو چھوڑ دیا تھا۔‘‘ جب کہ ایک روایت کے الفاظ ہیں : ’’مجھے بھلا دی گئی تھیں ۔‘‘ (دیکھیے صحیح بخاری ومسلم) اس کا جواب یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن آیات کو بھول گئے ان کا یاد آجانا جمع قرآن میں شکوک پیدا نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ جس روایت میں یہ ذکر آتا ہے کہ میں نے چھوڑ دیا تھا۔ اس کی