کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 196
کی وجہ سے فتنہ ابھرنے کا اندیشہ تھا۔ جب کہ اس سے پہلے سات قراء تیں ایک مصحف میں جمع تھیں اور اسے جمع کرنے کا اعزاز سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حاصل ہے۔ (انظر الاتفاق، ص: ۵۹،۶۰، ج ۱) سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے کارنامے سے فتنے دب گئے، اختلافات ختم ہوگئے اور اتنا لمبا عرصہ گزرنے اور حوادثاتِ زمانہ پیش آنے کے باوجود آج تک قرآن کریم محفوظ ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جو مصاحف مختلف ممالک میں بھیجے ان کی تعداد کے بارے اہل علم کا اختلاف ہے۔ (ا) ایک قول یہ ہے کہ ان کی تعداد سات تھی اور وہ مکہ، شام، بصرہ، کوفہ، یمن، بحرین اور مدینہ میں رکھے گئے تھے۔ چناں چہ ابن ابی داؤد کہتے ہیں : میں نے ابوحاتم سحبستانی سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ سات مصاحف لکھے گئے جو کہ مکہ، شام، یمن، بحرین، بصرہ اور کوفہ میں بھیجے جب کہ ایک مصحف مدینہ میں رکھا گیا۔ (ب)ان کی تعداد چار تھی:مصحف عراقی، مصحف شامی، مصحف مصری اور مصحف الامام یا کوفی، بصری، شامی اور الامام۔ ابوعمروالدانی اپنی کتاب ’’المقنع فی رسم القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اکثر علماء کا کہنا ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے چار مصاحف لکھوائے تھے اور ہر کونے کی طرف ایک ایک مصحف بھجوا دیا تھا۔ یعنی کوفہ، بصرہ، شام اور مدینہ میں ۔ (ج) ایک قول یہ بھی ہے کہ ان مصاحف کی تعداد پانچ تھی اور امام سیوطی کا مذہب ہے کہ یہی بات مشہور ہے۔ لیکن جو نسخے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو بھیجے گئے تھے وہ ان کی وفات تک ان کے پاس رہے اور بعد میں انہیں دھو کر صاف کر دیا گیا تھا۔[1] نیز یہ بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ انہیں مروان بن حکم نے لے کر جلا دیا تھا۔
[1] تفسیر الطبری: ۱/۶۱۔