کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 194
اپنایا بھی نہیں حالانکہ امت نے ان تمام یا کسی ایک قراء ت کے صحیح ہونے کا انکار نہیں کیا تھا، لیکن انہیں اپنا اور باقی امت مسلمہ کا خیال تھا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پوری امت اسلامیہ اسی ایک حرف کے مطابق قراء ت کرتی ہے۔ جسے ان کے مشفق اور خیرخواہ امام نے ان کے لیے منتخب کیا تھا اور باقی تمام قراء ات کو چھوڑ دیا ہے۔
بعض کم علم لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ جو قراء ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کی اور لوگوں کو سکھائی اس قراء ت کو چھوڑنا کیسے جائز ہوا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم واجب اور فرض نہیں تھا بلکہ یہ صرف رخصت اور اباحت کے طور پر تھا، کیوں کہ اگر وہ تمام قراء ات فرض ہوتیں تو یہ بھی ضروری تھا کہ ان تمام قراء ات کا علم واجب ہو تاکہ یہ بات کہنے والے کے لیے کوئی حجت ہوتی اور اس کی خبر سے عذر کا خاتمہ ہو جاتا اور امت کی قراء ت میں شکوک وشبہات پیدا نہ ہوتے لیکن چوں کہ صحابہ کرام نے تمام قراء ات کو نقل ہی نہیں کیا، اس کا مطلب ہے کہ انہیں ان قراء ات کا اختیار تھا۔ نیز قرآن کریم کو نقل کرنے والے بعض لوگ ایسے بھی تھے جو ان سات حروف میں سے بعض کو نقل کر کے حجت واجب کرنا چاہتے تھے اور اگر معاملہ ایسا ہی تھا تو امت تمام قراء ات کو نقل کرنا نہ چھوڑتی بلکہ ان پر یہی واجب تھا جو انہوں نے کیا اور انہوں نے جو کچھ کیا اسلام اور مسلمانوں کے لیے وہی بہتر تھا۔ چناں چہ انہوں نے جو کام کیا اگر نہ کرتے تو اس میں مسلمانوں کی خیر خواہی کی بجائے ان پر زیادتی ہوتی اور وہ ایسی سوچ رکھنے والے نہیں تھے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی جمع وتدوین میں فرق:
دلائل سے پتا چلتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جمع قرآن کے اسباب وکیفیات عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع سے مختلف تھے۔
٭ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے قرآن کو جمع کرنے کا سبب حاملین قرآن کے چلے جانے سے قرآن کے چلے جانے کا خدشہ تھا۔ جب قراءِ کرام بہت تعداد میں شہید ہوئے تھے۔
جب کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے جمع کرنے کا سبب قراء ات میں اختلاف تھا جب انہوں نے یہ اختلاف اور ایک دوسرے کو غلط کہنا دیکھا تو یہ کام کیا۔