کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 193
حروف (لہجوں ) پر قرآن نازل ہوا تھا ان میں سے صرف ایک حرف (لہجے) پر قرآن کا نسخہ تیار کیا گیا تاکہ لوگ ایک قراء ت پر متفق ہو جائیں ۔ سیدنا عثمان نے سیدہ حفصہ سے حاصل کیا گیا نسخہ انہیں واپس کر دیا اور جو نسخے خود تیار کروائے تھے انہیں تمام شہروں میں بھیج دیا ۔ ایک نسخہ مدینہ میں رکھا۔ جسے ’’الامام‘‘ کہا جاتا تھا، یہ نام رکھنے کی وجہ گزشتہ روایات میں بیان ہونے والی بات ہے کہ انہوں نے فرمایا تھا: اے اصحابِ محمد! اکٹھے ہو جاؤ اور لوگوں کے لیے ایک رہنما (الامام) لکھو۔ اور اس مصحف کے علاوہ تمام صحائف ومصاحف کو جلانے کا حکم دے دیا تھا۔
امت نے اسی قراء ت کو لے لیا اور اس کے علاوہ دیگر چھ قراء ات کو چھوڑ دیا۔ نیز اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سات قراء توں پر پڑھنا واجب بھی نہیں تھا۔ اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام حروف کے مطابق قراء ت کو واجب قرار دیا ہوتا تو پھر ان تمام قراء ات کو متواتر طور پر نقل کرنا بھی واجب ہوتا تاکہ حجتقائم ہو سکے لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے یہ کام نہیں کیا تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قراء تیں آسانی اور رخصت کے لیے تھیں جب کہ واجب ان سات قراء توں میں سے کسی ایک قراء ت کا تواتر کے ساتھ نقل کرنا تھا اور یہ کام الحمد للہ ہوگیا۔
ابن جریر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے اس کارنامے پر رقم طراز ہیں :
’’سیدنا عثمان نے لوگوں کو ایک مصحف اور ایک قراء ت پر جمع کیا اور اس مصحف کے علاوہ تمام مصاحف کو تلف کر دیا اور انہوں نے عزم کر لیا تھا اس مصحف الامام کے مخالف جو مصحف بھی ہوگا اسے جلا دیں گے۔‘‘ (انظر تفسیر ابن حریر الطبری، ج ۱، ص: ۶۴،۶۵)
چناں چہ امت نے ان کے اس کارنامے کو توثیق کی اور اسے قبول کیا، کیوں کہ اس میں انہیں رشدوہدایت نظر آرہی تھی اور امت نے بھی ان چھ قراء توں کو چھوڑ دیا جنہیں ان کے امام عثمان رضی اللہ عنہ نے چھوڑنے کا حکم دیا تھا، لوگوں نے ان کی پوری پوری اتباع کی کیوں کہ آپ کو اپنا اور اپنے بعد آنے والے تمام مسلمانوں کا خیال تھا۔ آخرکار معاملہ یہاں تک پہنچ گیا کہ امت ان چھ قراء توں کو بھول گئی اور ان کے تمام نشانات مٹ گئے، چناں چہ آج کوئی بھی ان حروف پر قراء ت نہیں کر سکتا کیوں کہ ان قراء توں کا وجود ختم ہو گیا تھا۔ نیز مسلمانوں نے ان حروف کی قراء ت کو