کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 192
عثمان رضی اللہ عنہ کو جب پتا چلا تو وہ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، کہنے لگے: تم میرے پاس اس قرآن میں اختلاف اور لحن کرتے ہو اور جو لوگ یہاں سے دور مختلف شہروں میں ہیں ان میں اختلاف اور لحن تم سے زیادہ ہے۔ اے اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آؤ اکٹھے ہو جاؤ اور لوگوں کے لیے ایک رہنما مصحف لکھو۔ ابوقلابہ کہتے ہیں : مجھے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں بھی لکھوانے والے لوگوں میں شامل تھا، فرماتے ہیں : بسااوقات کسی آیت میں اختلاف ہوتا تو انہیں ایسا آدمی یاد آجاتا جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے یاد کیا ہوتا تھا۔ اگر وہ کسی کام کی غرض کہیں باہر دیہات وغیرہ میں گیا ہوتا تو لکھنے والے اس سے پہلی اور بعد والی آیات لکھ لیتے اور اس کی جگہ چھوڑ دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ وہ آدمی خود آجاتا یا اسے بلا لیا جاتا۔ جب مصحف تیار ہو گیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام شہروں میں اعلان کروا دیا کہ میں نے اس طرح کا کام کیا ہے اور اس مصحف کے علاوہ میرے پاس جو کچھ لکھا ہوا ملا اسے مٹا دیا ہے، لہٰذا تم بھی اس کے علاوہ ہر چیز کو مٹا دو۔ (انظر الجز، الاول من تفسیر الطبری تحقیق وتخریج الاخوین محمد محمد شاکرو احمد محمد شاکر طبع دارالمعارف، ص: ۶۱،۶۲) محمد بن عبداللہ ابن اشتہ (م ۳۶۰ھ) نے بھی بواسطہ ایوب ابوقلابہ سے ایسے ہی روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ابن ابی داؤد نے اسے ’’المصاحف‘‘ میں ابوقلابہ کے طریق سے بیان کیا ہے۔ سوید بن غفلہ فرماتے ہیں : عثمان کے بارے صرف بھلی بات ہی کہو، اللہ کی قسم! انہوں نے مصاحف کے متعلق جو کچھ بھی کیا وہ ہم سب کی موجودگی میں کیا۔ پھر فرمانے لگے: تم اس قراء ت کے بارے کیا کہتے ہو۔ بعض لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ میری قراء ت تمہاری سے بہتر ہے حالانکہ یہ بات بھی کفر ہو سکتی ہے۔ ہم نے کہا: آپ کی کیا رائے ہے؟ تو فرمانے لگے: میری رائے تو یہ ہے کہ لوگوں کو ایک قراء ت پر جمع کر دیا جائے تاکہ تفرقہ اور اختلاف نہ رہے ، تو ہم نے عرض کی: جی ہاں آپ کی رائے بالکل درست ہے۔ (اخرجہ ابن ابی داؤد بسند صحیح) اس سے پتا چلتا ہے کہ جو کام سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کیا اس پر تمام صحابہ کا اتفاق تھا، جن سات