کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 190
اس جمع کو ’’جمع الثانی‘‘ (دوسری جمع وتدوین) کا نام دیا جاتا ہے۔
۳۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں جمع وتدوین:
اسلامی فتوحات کا سلسلہ وسیع ہوا، قراء کرام مختلف شہروں میں بکھر گئے اور ہر شہر والے اپنے پاس آنے والے قراء سے قراء ت سیکھنے لگے ۔ یہ قراء نازل ہونے والے مختلف لہجوں میں قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے، چناں چہ جب یہ لوگ کسی ایک جگہ یا جنگ کے موقع پر جمع ہوتے تو بعض لوگ دوسری قراء توں پر تعجب کرتے لیکن ہر کوئی اس بات پر قانع تھا کہ یہ ساری قراء ات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں لیکن یہ تمام چیزیں قراء ات کے بارے ان شکوک وشبھات کو نہ روک سکیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ تھیں ، پھر ان کے فصیح اور فصیح تر ہونے کے بارے گفتگو ہونے لگی، اگر صورتِ حال یہی رہتی تو ضد بازی شروع ہو جاتی جس کا انجام جھگڑے اور گناہ کی صورت میں ظاہر ہوتا، لہٰذا اس فتنہ کا علاج ضروری تھا۔
جب اہل عراق سے آرمینیہ اور آذربائیجان کے معرکے پیش آئے تو ان غزوات میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بھی تھے، انہوں نے قراء ات میں بہت سا اختلاف دیکھا، ان میں سے بعض قراء توں میں میں لحن موجود تھا، لیکن اس کے باوجود ہر ایک اپنی قراء ت کو پسند کرتا تھا اور اس کی ہی حمایت کرتا تھا اور دوسری قراء ت سے اختلاف رکھتا تھا، نیز دوسرے کو کافر تک کہہ دیا جاتا۔ چناں چہ یہ صورتِ حال دیکھ کر وہ کافی گھبرائے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس سے آگاہ کیا۔ اس سے پہلے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو یہ خبر بھی پہنچ چکی تھی کہ بچوں کو پڑھانے والے قراء کے درمیان بھی ایسا ہی اختلاف پایا جاتا ہے اور یہی اختلاف اساتذہ کے بعد بچوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ چناں چہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اس اختلاف کو معمولی نہ سمجھا اور قرآن سے تحریف وتبدیل سے بچانے کا فیصلہ کیا اور سب صحابہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مصحف کے مطابق نسخے تیار کرنے کی تجویز دی تاکہ لوگوں کو ایک قراء ت پر جمع کیا جا سکے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو پیغام بھیجا تو انہوں نے وہ مصحف سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف بھجوا دیا۔ سیدنا عثمان نے وہ مصحف زید بن ثابت انصاری، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمان بن حارث بن ہشام جن کا تعلق قریش سے تھا کی طرف بھیجا اور انہیں حکم دیا