کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 189
زید رضی اللہ عنہما سے فرمایا: ’’تم دونوں مسجد کے دروازے پر بیٹھ جاؤ جو شخص کتاب اللہ کے کسی حصے پر دو گواہ لے آئے اسے لکھ لینا۔‘‘ یہ روایت منقطع ہے لیکن اس کے راوی ثقہ ہیں ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : دو گواہوں سے مراد حفظ اور کتابت ہے۔ امام سخاوی اپنی کتاب ’’جمال القراء‘‘ میں لکھتے ہیں : دو گواہوں سے مراد حفظ اور کتابت ہے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھا گیا یا یہ مطلب ہے کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ یہ کتابت اسی طرح ہے جس طرح قرآن کا نزول ہوا۔ ابوشامہ کہتے ہیں : ان کا مقصد یہ تھا کہ وہی کچھ لکھا جائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لکھا گیا ہو، جس کاانحصار صرف یادداشت پر نہ ہو۔ اسی لیے سورت توبہ کی آخری آیات کے بارے فرمایا کہ مجھے ابوخزیمہ کے علاوہ کسی اور سے نہیں ملیں ، یعنی ان کے علاوہ کسی اور کے پاس لکھی ہوئی نہیں ملیں ، کیوں کہ وہ کتابت کے بغیر صرف حفظ پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ یہ بات ہم بخوبی جانتے ہیں کہ عہد نبوی میں قرآن لکھا جا چکا تھا لیکن چمڑے کے ٹکڑوں ، ہڈیوں اور شاخوں میں جدا جدا تھا، پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے آیات اور سورتوں کی ترتیب کے ساتھ ایک مصحف میں جمع کرنے کا حکم دیا مزید یہ کہ اس کی کتابت ان سات حروف (لہجوں ) پر ہو ئیں ‘ جن میں قرآن نازل ہوا تھا۔ اس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ اس طرز پر قرآن کو جمع کرنے والے پہلے آدمی تھے۔ اگرچہ چند صحابہ کے پاس انفرادی طور پر اپنے اپنے مصحف موجود تھے۔ جیسے سیدنا علی، ابی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم کے مصاحف ، لیکن وہ مصاحف دقت وجستجو اور جمع وترتیب میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے جمع کردہ مصحف کے برابر نہیں تھے۔ اسی طرح ان میں ناسخ ومنسوخ اور اجماع کا وہ خیال نہیں رکھا گیا تھا جو مصحف ابوبکر رضی اللہ عنہ میں تھا۔ یہی وہ خوبیاں ہیں جن کی بناء پر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حکم پر تیار کیا جانے والا مصحف ایک ممتاز حیثیت رکھتا ہے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ قرآن کو مصحف کا نام سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جمع وتدوین کے بعد ہی دیا گیا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مصاحف کے معاملے میں سب سے زیادہ اجر حاصل کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ، ابوبکر پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں ہوں ، انہوں نے سب سے پہلے کتاب اللہ کو جمع کیا۔