کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 188
سورہ توبہ کی آخری آیات
﴿لَقَدْ جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ. فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ ہُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ.﴾ (التوبہ: ۱۲۸۔۱۲۹)
مجھے ابوخزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ سے ملیں جو کسی اور کے پاس نہیں تھیں ۔ یہ مصاحف ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات تک ان کے پاس پھر عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی میں ان کے پاس اور پھر حفصہ بنت عمر کے پاس رہے۔
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے انتہا درجہ تحقیق سے کام لیا، وہ حفظ کے علاوہ کتابت کو بھی ضروری سمجھتے تھے، حدیث میں وارد ان کی بات کہ ’’سورت توبہ کی آخری آیات مجھے صرف ابوخزیمہ انصاری سے ملیں کسی اور سے نہیں ۔‘‘ ان کے اصول کے منافی نہیں اور نہ اس کا مطلب یہ کہ یہ قراء ت متواتر نہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات ان کے علاوہ کسی اور کے پاس لکھی ہوئی نہیں تھیں ۔ جب کہ یہ آیات سیدنا زید سمیت بہت سے صحابہ کو یاد تھیں ، لیکن معاملہ یہ تھا کہ زید رضی اللہ عنہ حفظ وکتابت دونوں چیزوں پر اعتماد کرتے تھے تو یہ آیات بہت سے لوگوں کو یاد تھیں اور وہ گواہی بھی دیتے تھے کہ انہیں لکھا گیا تھا لیکن صرف ابوخزیمہ انصاری کے پاس ہی لکھی ہوئی موجود تھی۔
ابن ابی داؤد نے یحییٰ بن عبدالرحمان کے طریق سے بیان کیا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بھی قرآن سیکھا ہو وہ اسے لے آئے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کاغذ، تختیوں اور کھجور کی ٹہنیوں پر لکھا کرتے تھے۔ وہ اس وقت تک کسی سے کچھ قبول نہیں کرتے تھے جب تک دو آدمی گواہی نہ دیتے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ صرف لکھے ہوئے پر اکتفا نہیں کرتے تھے جب تک سن کر یاد کرنے والے کی گواہی نہ مل جاتی۔ حالانکہ زید خود حافظ تھے لیکن احتیاط کی غرض سے وہ ایسا کرتے تھے۔
اسی طرح امام ابن ابی داؤد نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ابی ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر اور