کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 186
ہے۔ وہ فرماتے ہیں : نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو قرآن کسی چیز میں (مکمل) جمع نہیں کیا گیا تھا۔ یعنی ایک ہی مصحف میں آیات اور سورتوں کی ترتیب کے ساتھ جمع نہیں تھا۔
امام خطابی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قرآن کریم کو ایک مصحف میں جمع نہ کرنے کی وجہ تھی کہ بعض احکام یا تلاوت کے منسوخ ہونے کا انتظار رہتا تھا۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ساتھ اس کا نزول مکمل ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے حفاظت قرآن کی ضمانت کے بارے اس امت سے کیے ہوئے وعدے کو پورا کرنے کے لیے خلفائے راشدین کے دلوں میں یہ بات بٹھا دی، چناں چہ اس کی ابتداء عمر رضی اللہ عنہ کے مشورہ سے صدیق رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ہوئی۔ (الاتقان: ۱/۵۷)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حفظ وکتابت میں ہونے والی اس جمع کو ’’الجمع الاول‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
۲۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں قرآن کی جمع وتدوین:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ امورِ خلافت کو سرانجام دینے لگے۔ انہیں عربوں کے طرف سے فتنہ ارتداد کا سامنا کرنا پڑا۔ چناں چہ آپ نے متعدد لشکر تیار کر کے مرتدین کے خلاف جنگ کرنے کے لیے روانہ کیے۔ بارہ ہجری میں اہل یمامہ کے ساتھ جنگ ہوئی جس میں قراء صحابہ کی ایک بہت بڑی تعداد شامل تھی۔ اس جنگ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے بہتر قاری شہید ہوگئے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بہت گھبرائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر اس قرآن کے ضائع ہونے کے خدشہ سے اسے جمع کرنے اور لکھنے کا مشورہ دیا کیوں کہ جنگ یمامہ میں بہت سے قراء شہید ہوگئے تھے اور ڈر تھا کہ اگر دیگر معرکوں میں بھی ایسے ہی قراء شہید ہوتے رہے تو قرآن ضائع ہو جائے گا اور بھول جائے گا۔
سید ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ بات پسند نہ آئی اور جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا اسے کرنا بہت بڑا بوجھ سمجھا، لیکن عمر رضی اللہ عنہ ان سے اصرار کرتے ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس کام کے لیے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سینے کو بھی کھول دیا ۔ چناں چہ انہوں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو بلایا جنہیں پڑھنے لکھنے اور عقل وشعور میں ایک خاص مقام حاصل تھا اور اسی طرح جب آخری مرتبہ قرآن سنایا گیا تو وہ حاضر بھی تھے ، ان کے سامنے عمر رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بات رکھی۔ جس طرح ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ