کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 185
تھے، لیکن جب رمضان میں جبریل علیہ السلام آپ سے ملتے تو آپ اور بھی زیادہ سخی ہوتے۔ نیز جبریل علیہ السلام کا معمول تھا کہ وہ رمضان کی ہر رات آپ سے ملتے اور آپ کو قرآن کا دور کرواتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب جبریل علیہ السلام ملاقات کرتے تو آپ آندھی سے بھی زیادہ سخاوت کرنے والے ہوتے۔ (متفق علیہ)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے پاس کتابت یا حفظ کی صورت میں جتنا بھی قرآن ہوتا اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرتے تھے، یہ کتابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک مصحف میں موجود نہیں تھی، بلکہ ایک چیز کسی ایک پاس ہوتی تو وہ دوسرے کے پاس نہیں ہوتی تھی۔ علماء نقل کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے علی بن ابی طالب، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مکمل قرآن کریم حفظ کر لیا تھا، نیز علماء نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ ان میں زید بن ثابت نے سب سے آخر میں قرآن کریم سنایا تھا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو قرآن سینوں میں محفوظ اور مختلف اشیاء پر لکھا ہوا تھا لیکن اس کی آیات و سورۃ جدا جدا تھیں یا صرف آیات مرتب تھیں ۔ ہر سورت ایک ایک صحیفہ میں سات حروف (لہجوں ) میں لکھی گئی تھی اور اسے ایک عام مصحف میں نہیں لکھا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وحی نازل ہوتی رہتی تو قراء اسے یاد کر لیتے اور کاتبین وحی اسے نوٹ کر لیتے اس لیے اسے ایک مصحف میں مدون کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، کیوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نزولِ وحی کا انتظار رہتا، اور بسا اوقات کسی پچھلے حکم کو منسوخ کرنے والی آیات بھی نازل ہوتیں اور کتابت قرآن نزول کی ترتیب سے نہیں ہوتی تھی، بلکہ کسی بھی آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ فرماتے کہ فلاں آیت کو فلاں آیت کے ساتھ اور فلاں کو فلاں سورت میں لکھا جائے۔
اگر قرآن کریم کو ایک ہی مصحف میں دو گتوں کے درمیان لکھ دیا جاتا تو جب بھی وحی نازل ہوتی تو اسے تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آتی۔ امام زرکشی فرماتے ہیں :
قرآن کریم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک ہی مصحف میں نہ لکھے جانے کی وجہ یہ تھی تاکہ ہر وقت اسے تبدیل نہ کرنا پڑے، اسی لیے اس کی کتابت نزولِ قرآن کی تکمیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک موخر رہی۔ اس بات کی تائید سیدنا زید بن ثابت کے بیان سے بھی ہوتی