کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 184
لیکن ان کی اسناد ہم تک نہیں پہنچیں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ان دلائل سے واضح ہوتا ہے کہ عہد رسالت میں حفاظِ قرآن کی تعداد بہت زیادہ تھی اور کسی چیز کو نقل کرنے کے لیے حافظے پر اعتماد کرنا اس امت کا خاصہ ہے۔ شیخ القراء ابن جزری فرماتے ہیں : ’’نقل قرآن میں کتابوں اور مصاحف کی بجائے دلوں اور سینوں پر اعتماد اللہ تعالیٰ کا اس امت پر احسان ہے۔ ‘‘ ۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کتابت قرآن: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ میں سے کاتبیں وحی مقرر فرمائے، مثلاً سیدنا علی، معاویہ، ابی بن کعب اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم ، چناں چہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو آپ ان حضرات کو اسے لکھنے کا حکم دیتے اور اس آیت کو اس کے متعلقہ سورت میں رکھنے کے لیے اس کی جگہ کا تعین بھی فرماتے، یہاں تک کہ اس کی کتابت سطروں اور حفظ دلوں میں ظاہر ہوگیا۔ اسی طرح کچھ ایسے صحابہ بھی تھے جو قرآن نازل ہونے پر اپنی طرف سے ہی اسے لکھ لیا کرتے تھے اور یہ کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر ہی کیا کرتے تھے۔ اور یہ لوگ اسے کھجور کی ٹہنیوں ، صاف پتھروں ، کھجور کے تنوں ، چمڑے کے ٹکڑوں ، پالان کی لکڑیوں اور اونٹ یا بکری کے شانے کی چوڑی ہڈیوں پر لکھا کرتے تھے۔ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کاغذ یا چمڑے کے ٹکڑوں پر قرآن کو تالیف کیا کرتے تھے۔ (اخرجہ الحاکم فی المستدرک بسند علی شرط الشیخین) ان تمام باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتابت قرآن میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو کس قدر مشقت اٹھانا پڑتی تھی، اس لیے کہ ان کے پاس مذکورہ وسائل کے علاوہ کتابت کے آلات نہیں تھے، اسی لیے انہوں نے کتابت کے ساتھ ساتھ حفظ بھی کیا۔ جبریل علیہ السلام ہر سال ماہ رمضان کی راتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے تھے۔ سیدنا عبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخاوت میں سب لوگوں سے بڑھ کر