کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 182
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کے وقت اشعری لوگ جب نماز شروع کرتے ہیں تو میں انہیں پہچان لیتا ہوں ، میں رات کے وقت ان کی آوازوں کی وجہ سے ان کے ٹھکانے پہچان لیتا ہوں حالانکہ دن کے وقت جب وہ پڑاؤ کرتے ہیں تو میں نے ان کے ٹھکانوں کو نہیں دیکھا ہوتا۔ (رواہ البخاری ومسلم)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو قرآن کریم زبانی یاد کرنے اور پڑھنے پڑھانے کا بہت شوق تھا، اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی ہمت بڑھاتے اور ان کے لیے قرآن کی تعلیم دینے والوں کا انتخاب فرمایا کرتے تھے۔ چناں چہ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب کوئی آدمی ہجرت کر کے (مدینہ) آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کو کسی انصاری آدمی کے سپرد کر دیتے جو اسے قرآن کی تعلیم دیتا۔ مسجد نبوی تلاوت قرآن کی آوازوں سے گونج اٹھا کرتی تھی، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی آوازیں پست کرنے کا حکم دیا تاکہ وہ ایک دوسرے سے جھگڑ نہ پڑیں ۔ (مناہل العرفان للزرقانی، ص: ۲۳۴، ج۱)
گزشتہ صفحات میں مذکورہ بخاری شریف کی تین روایات میں صرف سات حفاظ کا تذکرے کو اس چیز پر محمول کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں نے قرآن کریم مکمل اپنے سینوں میں محفوظ کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا تھا اور ان کی سند ہم تک پہنچی، جب کہ ان کے علاوہ بھی کثیر تعداد میں حفاظ قرآن تھے لیکن ان میں یہ خوبیاں موجود نہیں تھیں ۔ اسی طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین مختلف شہروں میں پھیل گئے اور انہوں نے ایک دوسرے سے قرآن حفظ کیا، اس کے لیے یہی دلیل کافی ہے کہ بئر معونہ پر قتل ہونے والے صحابہ سب کے سب قراء تھے اور ان کی تعداد ستر تھی، جیسا کہ بخاری میں مذکور ہے۔
امام قرطبی فرماتے ہیں : جنگ یمامہ میں ستر قراء شہید ہوئے، اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بئرمعونہ کے شہداء کی تعداد بھی اتنی ہی تھی، چناں چہ گزشتہ روایات میں مذکور صرف سات قراء کے متعلق علماء نے یہی بات سمجھی ہے اور ان بارے مروی احادیث کی یہی تاویل کی ہے۔ امام ماوروی سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث ((لَمْ یَجْمَعِ الْقُرْآنَ غَیْرَ اَرْبَعَۃٍ)) یعنی قرآن صرف چار آدمیوں کو یاد تھا پر تعلیق لکھتے ہوئے کہتے ہیں : سیدنا انس کے اس قول سے یہ لازم نہیں آتا کہ