کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 180
جب وہ چلے جاتے تو آپ اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق پڑھ لیتے۔ (اخرجہ البخاری ومسلم وغیرھما عن ابن عباس) دوسرا معنی:… جمع قرآن سے مراد پورے قرآن کی کتابت ہے۔ آیات اور سورتوں کو علیحدہ کرنا، آیات کو مرتب کرنا، ہر سورت کو ایک صحیفہ میں علیحدہ کرنا یا آیات و سور کو اکٹھے صحائف میں ترتیب دینا جس سے تمام سورتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جائیں ۔ اب ان دونوں معانی کے اعتبار سے جمع قرآن کی روایات ملاحظہ فرمائیں ۔ ۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بذریعہ حفظ قرآن کی جمع: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے دلچسپی تھی، آپ بڑے شوق سے اس کے نزول کا انتظار فرماتے، آپ اسے اللہ کے وعدے ﴿اِِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ﴾ کے مطابق یاد کر لیتے۔ اس اعتبار سے آپ اس کے پہلے حافظ اور اپنے صحابہ کے لیے بہترین نمونہ تھے۔ کیوں کہ صحابہ کرام کو بھی دین کے مرکز اور رسالت کے منبع سے بے پناہ محبت تھی۔ قرآن ۲۳ سالوں میں نازل ہوا، کبھی صرف ایک آیت نازل ہوتی، کبھی دس تک آیات اترتیں ، چناں چہ جب بھی کوئی آیت نازل ہوتی تو وہ سینوں میں محفوظ ہو جاتی اور دل میں اسے یاد کر لیتے۔ بے مثال حافظہ عربوں کی خوبی تھی، یہی وجہ تھی کہ لکھنے پڑھنے سے نابلد ہونے کے باوجود گزشتہ واقعات، اشعار اور انساب ان کے دلوں کی تختیوں پر نقش تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں تین روایات ذکر کر کے ثابت کیا ہے کہ سات صحابہ حفاظ تھے: عبداللہ بن مسعود، سالم بن معقل مولیٰ ابی حذیفہ، معاذ بن حبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابو زید بن السکن اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہم اجمعین ۔ اب وہ تین روایات ملاحظہ ہوں : ۱۔ سیدنا عبداللہ بن عمروبن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’قرآن چار آدمیوں سے حاصل کرو: عبداللہ بن مسعود، سالم، معاذ اور ابی بن کعب سے۔‘‘ ان میں عبداللہ بن مسعود اور سالم کا تعلق مہاجرین سے جب کہ معاذ اور ابی کا تعلق انصار سے تھا۔