کتاب: مباحث فی علوم القرآن - صفحہ 179
مبحث: 8
قرآن کریم کی جمع وتدوین
علماء کے نزدیک جمع قرآن سے دو معانی مراد ہیں :
پہلا معنی:… جمع سے مراد اس کا لفظ اور جُمَّاع القرآن سے مراد اس کے حفاظ ہیں ۔یہ معنی اللہ تعالیٰ کے اپنے نبی علیہ السلام کو خطاب کرنے میں پایا جاتا ہے۔ جب جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لے کر نازل ہوتے تو ان کے فارغ ہونے سے پہلے آپ یاد کرنے کی غرض سے اپنے ہونٹوں اور زبان مبارک کو تیزی سے حرکت دیتے ، تو رب العالمین نے فرمایا:
﴿لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ . اِِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ. فَاِِذَا قَرَاْنٰہُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ. ثُمَّ اِِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ.﴾ (القیامۃ: ۱۶۔۱۹)
’’آپ اسے جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں ، اس قرآن کا (آپ کو) یاد کرانا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے، پھر جب ہم پڑھ لیں تو آپ پڑھیں پھر اس کا بیان بھی ہمارے ذمہ ہے۔‘‘
سیّدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی سے کافی سختی برداشت کرنا پڑتی تھی، آپ اس لیے اپنی زبان اور ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے کہ کہیں کوئی چیز یاد ہونے سے رہ نہ جائے، چناں چہ اللہ تعالیٰ نے آیات ﴿لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ. اِِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَقُرْاٰنَہٗ. ……﴾ نازل فرما کر آپ کو تسلی دی کہ اسے آپ کے سینے میں جمع کرنا ہماری ذمہ داری ہے اور آپ کو بتایا کہ جب ہم آپ کو پڑھائیں تو آپ خاموشی اور توجہ سے سنیں کیوں کہ ہم آپ کی زبان کے ذریعے اسے بیان کردیں گے، ایک روایت کے الفاظ ہیں :((عَلَیْنَا اَنْ نَّقْرَأَہُ۔))
’’یعنی آپ کو پڑھانا ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘
اس کے بعد جب جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے تو آپ توجہ سے سنتے پھر